بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ / دادا کا پوتوں کے لیے وصیت کرنا


سوال

کیا اس بیٹے کی اولاد ورثاء میں شامل ہوگی، جن کا باپ دادا سے پہلے فوت ہوچکا ہو، تو کیا دادا یہ وصیت کرسکتا ہے کہ میرے پوتوں  کو بھی میراث میں حصہ دے دو؟

جواب

وراثت کا استحقاق مورِث کی موت کے بعد  ثابت ہوتا ہے؛  اس لیے کسی شخص کے انتقال کے وقت اس کے جو ورثاء موجود ہوں  وہی اس کے وارث ہوتے ہیں، اس کی زندگی میں فوت ہونے والے اس کے وارث نہیں بنتے، لہذا اگر کسی بیٹے کا انتقال والد کی زندگی میں ہی ہوجائے تو اس کے بچے (اپنے چچا کی موجودگی میں) اپنے دادا کی میراث میں شرعاً حق دار نہیں ہوں گے،  ایسی صورت میں اگر پوتے ضرورت مند ہوں اور دادا کو اندازا ہوکہ میرے بعد میرے بیٹے پوتوں کو  تبرعاً کچھ نہیں دیں گے تو دادا کو  چاہیے کہ وہ ایک تہائی ترکہ (یعنی میت کا قرض وغیرہ ادا کرنے کے بعد مابقیہ ترکے میں سے 33۔33 فیصد) کے اندر اندر پوتوں کے لیے وصیت کرجائے، دادا اپنے ترکہ  کے  ایک تہائی کے اندر اندر اپنے پوتوں کے لیے جتنی چاہے وصیت کرسکتا ہے۔

لیکن وصیت کی صورت میں یہ حصہ میراث نہیں کہلائے گا، لہذا اگر دادا وصیت کے بغیر انتقال کرجائے تو اس کی وراثت میں پوتوں کا شرعاً کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

 ہاں اگر  مرحوم کے  بالغ ورثاء  مرحوم کےپوتوں کو اپنی رضامندی سے کچھ دے دیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا اور ثواب کا باعث ہوگا۔ اور پوتوں کے ضرورت مند ہونے کی صورت میں انہیں از خود کچھ دے دینا چاہیے۔

صحيح بخاري میں ہے  :

"وقال زيد: «ولد الأبناء بمنزلة الولد، إذا لم يكن دونهم ولد ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون، ويحجبون كما يحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن»".(8/ 151،باب میراث ابن الابن، ط: دار طوق النجاہ)

البحر الرائق   میں ہے:

"وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث فنقول: هذا فصل اختلف المشايخ فيه، قال مشايخ العراق: الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث، وقال مشايخ بلخ: الإرث يثبت بعد موت المورث".(9/346 ، کتاب الفرائض، ط: رشیدیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں