بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دائن سے مقروض کے امانت رکھوائے ہوئے پیسے خرچ ہونے کا حکم


سوال

 میں آپ سے ایک خاندان کی خاتون کے ایک مسئلے کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں، جو کافی کشمکش میں ہیں، اس خاتون کی ساس 15 سال تک ان کی تنخواہ پہ قابض رہیں، انہیں ایک ٹکا تک نہیں دیا، بالآخر وہ لوگ دوسرے شہر منتقل ہو گئے، 2،3 سال پہلے ان کی ساس ان کے پاس آئیں تو اس خاتون کو  50 ہزار بطورِ امانت دیے  کہ میرے مرنے پر یہ میری تدفین پہ خرچ ہوں، اس خاتون نے وہ رقم بطورِ امانت رکھ لی، کچھ عرصے بعد ضرورت کے تحت خرچ کرتی گئیں کہ واپس جمع کرکے رکھ لوں گی، اس طرح ساری رقم خرچ ہو گئی، اب وہ خاتون پریشان ہیں کہ کیا کریں؟  آپ شرعی لحاظ سے راہ نمائی فرمائیں کہ وہ کیا کریں؟  دوبارہ رقم جمع کریں یا پھر جو 15 سال کی محنت تھی اسی کا سوچ کے چھوڑ دیں؟

جواب

اگر مذکورہ خاتون کی ساس نے ان کی تنخواہ پر ناحق قبضہ کیا ہوا تھا، اور وہ خاتون اس تمام عرصہ میں ساس کو اپنی تنخواہ دینے پر دل سے رضامند نہیں تھیں، یعنی انہوں نے ساس کو اپنی تنخواہ کا مالک نہیں بنایا تھا، بلکہ وہ مجبوراً  خاموش رہی تھیں تو اس صورت میں پندرہ سال کی جتنی بھی تنخواہ تھی وہ سب مذکورہ خاتون ہی کی ملکیت تھی اور ان کو اپنی ساس سے  اپنی تنخواہ کے پیسے واپس لینے کا پورا حق تھا، اور ان کی ساس پر لازم تھا کہ وہ ان کی تنخواہ ان کو واپس لوٹادیں،  لیکن چوں کہ ساس نے ان کو ان کے پیسے واپس نہیں لوٹائے جو  کہ ان کا حق تھا؛ اس لیے ا گر مذکورہ خاتون سے اپنی ساس کے امانت رکھوائے ہوئے پیسے خرچ ہوگئے ہیں تو اس پر وہ پیسے دوبارہ جمع کر کے  اپنی ساس کو واپس کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ ان کی ساس نے  جتنے پیسے ناحق قبضہ کیے تھے ان میں سے یہ امانت والے پیسے منہا کردیے جائیں گے، پھر جتنے پیسے باقی رہ جائیں گے وہ مذکورہ خاتون کو واپس کرنا ساس کے ذمہ لازم رہے گا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200733

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں