بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خودکشی کے بعد توبہ کرنا


سوال

 اگر کسی نے خود کشی کی دوائی کھائی ہو  یعنی ایسی گولیاں استعمال کی ہوں کہ ان گولیوں کے کھانے سے اکثر انسان مر ہی جاتا ہے، لیکن بہت سارے لوگ بچ بھی گئے، تو کیا ایسی گولیوں کے استعمال کے بعد اگر کوئی آدمی  30  گھنٹے زندہ رہا ہو تو وہ شخص خودکشی کی موت مرے گا یا اپنی؟ مذکورہ شخص نے جب گولیاں استععمال کیں تو فوراً کہنے لگا کہ مجھے بچاؤ،خود بھاگ کر کسی کے پاس گیا کہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ، بعد ازاں اسے دوبارہ ڈاکٹر کے پاس بھی لے جایا گیا اور خوب دوائی وعلاج بھی چلتا رہا، لیکن وہ شخس زندہ نہیں بچا، جب یہ آدمی ہسپتال میں تھا  تو  اس سے کہا گیا کہ بھائی توبہ کرو، کہیں تمہاری موت واقع نہ ہوجائے تو  اس شخص نے خوب توبہ کی، الفاظ یہ تھے کہ یا اللہ مجھے معاف کردے،  مجھ سے غلطی ہوگئی، میں نے سب کچھ نادانی میں کیا ہے۔ آئندہ نہیں کروں گا، اس کے بعد یہ شخص تقریباً  18  گھنٹے زندہ رہا، پھر فوت ہوگیا، اب کیا اس شخص کی توبہ کا اعتبار ہے یا نہیں ؟ نیز کیا یہ اس شخص کی موت خود کشی والی کہلائے گی یا طبعی ؟

جواب

خودکشی کرنا کبیرہ گناہ  ہے، مذکورہ شخص کا اقدامِ خود کشی بلاشبہ کبیرہ گناہ تھا، لیکن آثارِ موت اور نزع کی حالت سے پہلے پہلے تک توبہ قبول ہونا حدیث میں مذکور ہے، موت سے پہلے انسان توبہ کرلے تو باری تعالیٰ  معاف کرنے والے ہیں،  جو  لوگ دنیا سے جاچکے ان کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہیے، یقیناً اللہ بخشنے والا مہربان ہے، بلکہ دعائے مغفرت بھی کی جائے ۔ لہٰذا مذکورہ شخص کے بارے میں یہی امید رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائیں گے، کیوں کہ (بظاہر) عین آثارِ موت سے پہلے اس نے توبہ کی ہے، اور اس کے لیے دعائے مغفرت بھی کرنی چاہیے۔ باقی اس کی موت کو مطلقاً طبعی موت تو نہیں کہا جاسکتا؛ کیوں کہ ظاہری سبب اقدامِ خود کشی ہی بنا ہے، اور بعد از توبہ اسے خود کشی بھی نہیں کہا جائے گا۔

امدادالفتاویٰ میں ہے:

’’خودکشی کرنے والے کے لیے دعاءِ مغفرت کرنا جائز ہے‘‘۔ (امداد الفتاوی 4/ 607) فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144107200153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں