بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلوتِ صحیحہ سے کیا مراد ہے؟


سوال

 نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے خلوتِ صحیحہ سے کیا مراد ہے؟

جواب

خلوتِ  صحیحہ سے مراد یہ ہے کہ مرد و عورت دونوں ایسی جگہ میں تنہا جمع ہوں جہاں ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں کوئی حسی، شرعی یا طبعی مانع نہ ہو، اگرچہ ایسی تنہائی کے باوجود ازدواجی تعلق قائم نہ کیا ہو۔

حسی مانع کی مثال: مرد و عورت دونوں یا کسی ایک کا ایسا بیمار ہونا کہ جماع کرنا مضر ہو۔

طبعی مانع کی مثال: عورت کا حیض و نفاس میں ہونا۔ 

مانعِ شرعی کی مثال: مرد و عورت دونوں یا کسی ایک کا حالتِ احرام میں ہونا ہے۔

الفتاوى الهندية - (7 / 150):
"وَالْخَلْوَةُ الصَّحِيحَةُ أَنْ يَجْتَمِعَا فِي مَكَان لَيْسَ هُنَاكَ مَانِعٌ يَمْنَعُهُ مِنْ الْوَطْءِ حِسًّا أَوْ شَرْعًا أَوْ طَبْعًا، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ".

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (3 / 114):
"( والخلوة ) مبتدأ خبره قوله الآتي: كالوطء ( بلا مانع حسي ) كمرض لأحدهما يمنع الوطء ( وطبعي ) كوجود ثالث عاقل، ذكره ابن الكمال وجعله في الأسرار من الحسي، وعليه فليس للطبعي مثال مستقل ( وشرعي ) كإحرام لفرض أو نفل". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200542

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں