بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع لینا کب جائز ہے؟


سوال

میرا نام شازیہ فاطمہ ہے۔ میری شادی مشکور احمد سے ۲۰۰۴ میں ہوئی تھی۔ ہمارے تین بچے ہیں (دو بڑے لڑکے ایان، عفان اور ایک بیٹی مریم ہے) جن کی عمریں بالترتیب ۱۲، ۹ اور ۸ سال ہے۔ میں نے شادی کے تیرہ سال انتہائی صبر وشکر کے ساتھ ان کےساتھ گزارے، مگر ان کی نفسیاتی بیماری کے سبب ان کا لہجہ انتہائی نامناسب ہوجا تا  اور وہ جھوٹے الزامات لگا کر میری کردار کشی کرنے لگے تو بہت تنگ  آ کر میں نے۲۰۱۷ میں خلع کے لیے عدالت سے رجوع کیا، ابھی کیس عدالت میں ہی تھا کہ انہوں نے گھر آ کر پاؤں پڑ کر معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ نفسیاتی ڈاکٹر سے باقاعدہ اپنا علاج کروائیں گے ،میرا اور بچوں کا مکمل نان و نفقہ ( اسکول وین اور قاری کی فیس اور ہمارا روز مرہ کا مکمل خرچ) ہر ماہ ادا کریں گے، اپنے یا میرے گھروالوں کے حوالے سے کسی بات کو بنیاد بنا کر مجھ سے جھگڑا نہیں کریں گے وغیرہ، مگر انہوں نے گزشتہ ایک سال میں مجھے بچوں کی اسکول فیس کے علاوہ کوئی رقم نہیں دی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کیا کہ اپنا علاج چھوڑ دیا ،جس کی وجہ سے ان کی طبعیت اور مزاج میرے لیے مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہوگیا ہے، مجھے اب ان کے  ساتھ کسی صورت میں نہیں رہنا، میں نے بہت ذہنی اذیت اٹھالی ہے،  اب مجھے خلع چاہیے۔ کیا میں شرعی طور پر خلع حاصل کر سکتی ہوں۔

جواب

آپ کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اپنا گھر بسانے کی کوشش کریں،  اس لیے کہ بغیر شرعی عذر کے عورت کا خلع کا مطالبہ کرنا گناہ ہے، اور اس پر سخت وعید آئی ہے۔ لہٰذا آپ خاندان کے بزرگوں کو یا محلے کے  بڑوں کے سامنے یہ مسائل رکھیں پھر وہ آپ کے شوہر کو سمجھائیں اور اس سے کوئی ضامن مانگیں جو کہ آئندہ آپ کی شکایا ت کے پیش نہ آنے کی ضمانت دے، اگر شوہر ایسا ضامن دے دے تو آپ کو اپنا گھر بسا لینا چاہیے، لیکن وہ اس پر راضی نہ ہو ، اور نہ مکمل خرچہ دیتا ہو اورآپ کے لیےموجودہ صورت میں گھر بسانا ممکن نہ ہو تو  شوہر سے کسی  طرح طلاق لے لیں، لیکن اگر شوہر طلاق دینے پر رضامند نہ ہو تو  پھر  اس کو کچھ مال وغیرہ دے کر یا مہر نہ لیا ہو تو اس کے عوض  شوہر کی رضامندی سے خلع  لے  لیں، لیکن  یہ ملحوظ رہے کہ شوہر کی رضامندی کے بغیر کورٹ کی یک طرفہ خلع نامہ جاری کرنے سے شرعاً خلع معتبر نہیں ہوتی، اور نکاح بدستور برقرار رہتا ہے۔

سنن أبي داود (2/ 234):

"2226- حدثنا سليمان بن حرب ،ثنا حماد ، عن أيوب ، عن أبى قلابة ، عن أبى أسماء ، عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أيما امرأة سألت زوجها طلاقاً في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة".

فتاوی عالمگیریمیں ہے:

"اذا تشاق الزوجان و خافا ان لايقيما حدود الله فلا بأس بان تفتدي نفسها منه بمال يخلعهابه، فاذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة، ولزمها المال". (كتاب الطلاق ،  الباب الثامن في الخلع، 1/ 519 ط:قديمي) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200621

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں