بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع یافتہ عورت کا ولی کے بغیر نکاح کرنا اور خط کے ذریعے نکاح کا حکم


سوال

جو عورت خلع یافتہ ہو وہ نکاح اپنی مرضی سے کر سکتی ہے یا ولی کی شرط ضروری ہے؟ اور کیا نکاح خط کے ذریعے ہو سکتا ہے ؟اس کی کیا شرائط ہیں؟

جواب

عاقلہ بالغہ لڑکی کا اپنے کفو اور برادری میں مناسب مہر کے ساتھ نکاح کر لینے سے شرعی طور پر نکاح صحیح اور درست ہوجاتا ہے، اگرچہ اس کا ولی موجود نہ ہو یا ولی راضی نہ ہو، البتہ اگر غیر کفو اور غیر برادری میں نکاح کرلیا ہے یاکفو میں، اس کے معیار سے بہت کم مہر باندھا ہے ، تو  یہ نکاح منعقد تو ہوجائے گا لیکن ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا، اگر اولاد ہونے سے پہلے پہلے ولی اس نکاح کو نامنظور کرتا ہے تو نکاح کالعدم ہوگا، اور اگر وہ نافذ کردیتا ہے یا اولاد ہوجاتی ہے تو اس کے بعد ولی کو رد کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔

نیز   خط کے ذریعے نکاح کی آسان صورت یہ ہے کہ اگر جانبین میں سے کوئی ایک مجلسِ نکاح میں موجود نہ ہو تو اس صورت میں اپنا وکیل مقرر کرے ، پھر یہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے اس کا نام مع ولدیت لے کر مجلسِ نکاح میں ایجاب وقبول کرے، تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔ 

 اور دوسری صورت یہ ہے کہ  خط کے ذریعے نکاح کا پیغام فریقِِ ثانی کو بھیجا جاتا ہے اور یہ خط جس مجلس میں کھول کر پڑھا جاتاہے وہ نکاح کی مجلس ہوتی ہے، اگر فریقِِ ثانی گواہوں کی موجودگی میں اس پیغام کو پڑھ کر قبول کرلیتا ہے تو نکاح منعقد ہوجاتا ہے اور اگر انکار کرتا ہےیا اس مجلس سے الگ ہوجاتا ہے تو یہ پیغام کالعدم ہوجاتا ہے، اور نکاح منعقد نہیں ہوتا۔

قال الحصكفي : "ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين."

قال ابن عابدين : "(قوله: لو حاضرين) احترز به عن كتابة الغائب، لما في البحر عن المحيط الفرق بين الكتاب والخطاب أن في الخطاب لو قال: قبلت في مجلس آخر لم يجز وفي الكتاب يجوز؛ لأن الكلام كما وجد تلاشى فلم يتصل الإيجاب بالقبول في مجلس آخر فأما الكتاب فقائم في مجلس آخر، وقراءته بمنزلة خطاب الحاضر فاتصل الإيجاب بالقبول فصح. اهـ." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/14، دار الفكر)

"و لایصح النکاح من غیر کفء، أو بغبن فاحش أصلاً (إلی قوله) وإن کان من کفوء وبمهر المثل صح..." الخ (الدر المختار، کتاب النکاح، باب الولي، ۳/۶۸)

وفی الدر المختار مع الرد المحتار:

"ومن شرائط الإیجاب والقبول: اتحاد المجلس لوحاضرین...

(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعاً تیسیراً". (کتاب النکاح: ۳/ ۱۴، ط: سیعد)

وفي الهندیة:

"أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لاينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد، حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان، وهو غائب فبلغه الخبر، فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة، فبلغها الخبر، فقالت: زوجت نفسي منه، لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى. ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً، فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى، وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لايجوز عندهما". (كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه: ۱/ ۲۶۹، ط: دار الفكر)

وفي النهر الفائق :

"واعلم أن للإيجاب والقبول شرائط: اتحاد المجلس، فلو اختلف لم ينعقد، بأن أوجب أحدهما فقام الآخر قبل القبول واشتغل بعمل آخر". (كتاب النکاح : ۲/ ۱۷۸، ط: دار الکتب العلمیة)

وفي البحر الرائق :

" ولم يذكر المصنف شرائط الإيجاب والقبول، فمنها: اتحاد المجلس إذا كان الشخصان حاضرين، فلو اختلف المجلس لم ينعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر بطل الإيجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان فجعل المجلس جامعاً تيسيراً". (كتاب النكاح: ۳/ ۸۹، ط: دار المعرفة)

وفي بدائع الصنائع:

" ... وأما الذي يرجع إلى مكان العقد فهو اتحاد المجلس إذا كان العاقدان حاضرين، وهو أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس لا ينعقد النكاح، بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد؛ لأن انعقاده عبارة عن ارتباط أحد الشطرين بالآخر، فكان القياس وجودهما في مكان واحد، إلا أن اعتبار ذلك يؤدي إلى سد باب العقود، فجعل المجلس جامعاً للشطرين حكماً مع تفرقهما حقيقةً؛ للضرورة، والضرورة تندفع عند اتحاد المجلس، فإذا اختلف تفرق الشطرين  حقيقةً وحكماً فلا ينتظم الركن". (  كتاب النكاح،   فصل وأما شرائط الركن فأنواع: ۲/ ۲۳۲، ط: دار الكتاب العربي) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں