آج کل فکس پرائز پر خرید و فروخت کثرت سے ہورہی ہے، کیا بھاؤ تاؤ کرنا زیادہ بہتر ہے یا فکس پرائز پر؟ نیزمشہور ہے کہ اتنا بھاؤ تاؤ کرو کہ پسینہ بہہ جائے، کیایہ کسی حدیث سے ثابت ہے؟
واضح رہے کہ خرید وفروخت کے معاملے میں بائع (فروخت کنندہ) اور مشتری (خریدنے والے) کے درمیان جو قیمت طے ہوجائے اسی کا اعتبار ہوتا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص کوئی چیز متعین قیمت(Fixed Price)پر خریدے یا اس کی قیمت کے حوالے سے بھاؤ تاؤ کرے،دونوں صورتیں جائز ہیں۔ خریدنے والے کو اختیار ہے کہ جہاں بھاؤ تاؤ کرنا ممکن ہو، کرسکتا ہے، اگر ممکن نہ ہو جیسے بڑے سٹوروں میں عموماً اشیاء کی قیمتیں مقرر ہوتی ہیں تو مقررہ قیمت پر بھی خرید سکتا ہے۔
نیز استفتا میں مشہور بات جو نقل کی گئی ہے کہ ’’اتنا بھاؤ تاؤ کرو کہ پسینہ بہہ جائے‘‘ تلاش کرنے کے باوجود کسی حدیث میں نہیں ملی۔
الہدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی میں ہے:
"قال: البيع ينعقد بالإيجاب والقبول إذا كانا بلفظي الماضي، مثل أن يقول أحدهما: بعت، والآخر: اشتريت؛ لأن البيع إنشاء تصرف، والإنشاء يعرف بالشرع والموضوع للإخبار قداستعمل فيه فينعقد به. ولاينعقد بلفظين أحدهما لفظ المستقبل والآخر لفظ الماضي، بخلاف النكاح، وقد مر الفرق هناك. وقوله: رضيت بكذا أو أعطيتك بكذا أو خذه بكذا، في معنى قوله: بعت واشتريت؛ لأنه يؤدي معناه، والمعنى هو المعتبر في هذه العقود، ولهذا ينعقد بالتعاطي في النفيس والخسيس هو الصحيح؛ لتحقق المراضاة". (الهداية، كتاب البيوع 3/18، ط: شركت علمية) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144012200860
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن