بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خریداری پر بذریعہ قرعہ اندازی انعام ملنے کا حکم


سوال

 ہمارے ہاں ایک اسٹور ہے جو ربیع الاول اور رمضان المبارک میں عمرہ آفر دیتےہیں، وہ اس طرح کہ 3000 ہزار کا سودا لو اور پرچی بکس میں ڈال دو ،  اس پر قرعہ اندازی ہوتی ہے جس کا نام نکلے اس کو عمرہ پیکیج ملتا ہے .کیا اس پیکیج سے عمرہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟  پیکیج ملنے کے فوراً بعد اگر عمرہ کرنے نہ جا سکے اور اس کا چار پانچ مہینے بعد جانے کا پروگرام ہو  تو جو پیسے ملے ہیں پیکیج میں ان کو اپنے کام میں لگا سکتا ہیں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ اسٹور  کا کسٹمر (گاہک) کو 3000  کی خریداری کرنے کی صورت میں بذریعہ قرعہ اندازی عمرہ آفر  دینے کا حکم یہ ہے کہ اگر مندرجہ ذیل شرائط پائی جائیں تو یہ معاملہ جائز ہوگا، ورنہ جائز نہیں ہوگا:
(۱) مذکورہ اسٹور  نے سامان کی قیمت اتنی ہی مقرر کی ہو جو کہ مارکیٹ میں ایسے سامان کی رائج ہو، یعنی اسٹور نے اس سامان کی عام قیمت میں انعام کی بنا پر اضافہ نہ کیا ہو ؛ اگراسٹور انعامی اسکیم کی بنا پر مارکیٹ ریٹ (ثمن مثل) سے زیادہ ریٹ (قیمت) رکھے گا تو گویا خریدار (گاہک) انعام کی امید اور لالچ میں اس اسٹور سے سامان مہنگے داموں خرید رہا ہے، جب کہ عمرہ پیکج کا ملنا یقینی نہیں، بلکہ موہوم ہے، اس طرح یہ معاملہ جوئے (قمار) کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔
(۲)اسٹور اس انعامی اسکیم کو اپنی ناقص مصنوعات کے نکالنے کا ذریعہ نہ بنائے، یعنی عمرہ پیکج  کا لالچ دے کر لوگوں کو اپنی ناقص مصنوعات خریدنے کی طرف راغب نہ کرے، ورنہ اس میں بھی جوئے (قمار) کی مشابہت آجائے گی۔
(۳)اسٹور سے مذکورہ سامان خریدنے والے گاہک (کسٹمر) کا مقصود اس خریداری سے واقعی اسٹور کا سامان حاصل کرنا اور اس سے نفع اٹھانا ہو، یعنی سامان مقصود ہو، موہوم انعام کا حصول مقصود نہ ہو، بلکہ انعام ایک ضمنی اور تبعی چیز ہو کہ اگر اسٹور کی طرف سے بطور تبرع مل جائے تو ٹھیک اور نہ ملے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں، لیکن اگر گاہک کو سامان کی کوئی ضرورت نہ ہو اور وہ یہ خریداری فقط موہوم انعام حاصل کرنے کی لالچ میں کرے تو پھر یہ معاملہ جوئے (قمار) کی مشابہت اختیار کر لے گا اور ناجائز ہوگا۔
چنانچہ اگر مذکورہ شرائط کی مکمل رعایت رکھی جائے تو اسٹور کا قرعہ اندازی کے ذریعہ گاہک کو انعام دینا اسٹور کی طرف سے تبرع اور احسان شمار ہوگا اور گاہک (کسٹمر) کے لیے اس انعام کا لینا جائز ہوگا، لیکن اگر مذکورہ شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو تو اس صورت میں یہ معاملہ جائز نہیں ہوگا۔

اگر کسی شخص کا جائز طریقہ پر قرعہ ا اندازی میں نام نکل آئے تو انعام وصول کرنے کے بعد  وہ اس کا مالک ہو گا اور اپنی مرضی کے مطابق اس کو استعمال کرنے کا حق دار ہو گا، اگر چاہے تو عمرہ پر چلا جائے اور اگر اس کو کسی دوسری طرح استعمال کرنا ممکن ہو تو اس کا بھی مکمل اختیار ہو گا۔ قرآن کریم میں ہے:
"يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا".[البقرة:۲۱۹ ]
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار. قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال والزوجة". (سورۃ البقرۃ، آیۃ:۲۱۹ ، باب تحریم المیسر، ج:۲ ؍۱۱ ،ط:دار احیاء التراث العربی۔بیروت)
قرآن کریم میں ہے:
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ" [المائدة: ۹۰ ]
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"وقال قوم من أهل العلم: القمار كله من الميسر وأصله من تيسير أمر الجزور بالاجتماع على القمار فيه وهو السهام التي يجيلونها فمن خرج سهمه استحق منه ما توجبه علامة السهم فربما أخفق بعضهم حتى لايخطئ بشيء وينجح البعض فيحظى بالسهم الوافر وحقيقته تمليك المال على المخاطرة وهو أصل في بطلان عقود التمليكات الواقعة على الأخطار كالهبات والصدقات وعقود البياعات ونحوها إذا علقت على الأخطار ... ولأن معنى إيسار الجزور أن يقول من خرج سهمه استحق من الجزور كذا فكان استحقاقه لذلك السهم منه معلقاً على الحظر". (سورۃ المائدۃ، آیۃ:۹۰ ، باب تحریم الخمر، ج:۴ ؍۱۲۷ ،ط:دار احیاء التراث العربی۔بیروت)
    مصنف ابن ابی شیبۃ میں ہے:
"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر". (کتاب البیوع و الاقضیۃ ، البیض الذی یقامر فیہ، ج:۴ ؍۴۸۳ ،مکتبۃ الرشد الریاض)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص". (کتاب الحظر و الاباحۃ، فصل فی البیع، ج:۶ ؍۴۰۳ ،ط:سعید ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201579

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں