بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خدمت کی وجہ سے دورانِ عدت والدہ کو سعودی عرب بلانا


سوال

میرے والد صاحب کا انتقال یکم ربیع الاول کو ہوا ہے،  اورمیری والدہ عدت میں ہیں، اس وقت وہ میرے والد مرحوم کے گھر میں بھائی، بھابی اور ان کے چھوٹےدو بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، میں ان کی بیٹی سعودی عرب میں مقیم ہوں، سوال یہ ہے کہ میری والدہ کی طبیعت خراب ہے اور پھسل کرگرنے کے باعث ان کے ہاتھ میں فریکچر ہوگیا ہے، جس وجہ سے وہ بنا کسی کی مدد کے باتھ روم بھی نہیں جاسکتی ہیں، بھائی دن بھر جاب پر ہوتا ہے اور بھابی بھی حمل سے ہیں اور ساتھ دو چھوٹے بچوں کو بھی سنبھالتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ والدہ کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی ہیں.

کیا اس صورت میں، میں والدہ کی باقی عدت اپنے پاس سعودی عرب بلوا کر پوری کروا سکتی ہوں؟

جواب

اگر کوئی خادمہ میسر آجائے اور وہ دورانِ عدت بھابھی کی موجودگی میں سائلہ کی والدہ کی خدمت کرے  تو سائلہ کی والدہ اپنے شوہر کے گھر ہی میں عدت گزارے  اور اگر کوئی خادمہ میسر نہ آئے  اورمذکورہ صورت حال میں والدہ کی خدمت کا کوئی اور بندوبست نہ ہو تو سائلہ کے لیے جائز ہےکہ وہ والدہ کو سعودی عرب بلا لے اور وہ  بقیہ  عدت وہاں گزارے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 536):

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق و موت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".

و في الرد:

"(قوله: ونحو ذلك) منه ما في الظهيرية: لو خافت بالليل من أمر الميت والموت ولا أحد معها لها التحول و الخوف شديد و إلا فلا". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105201132

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں