بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ختم قرآن کے بعد سورہ تراویح پڑھنے کا حکم


سوال

اگر تراویح میں قرآن مجید ختم ہو جائے تو اس کے بعد ''الم تر '' کی تراویح پڑھنا کیسا ہے ؟کیا اس میں کو ئی قباحت ہے؟ اور اگر کوئی  اس کا سختی سے انکار کرے تو ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

جواب

تراویح میں ایک قرآن مجید ختم کرنا سنت ہے، اور رمضان المبارک کے پورے  مہینہ میں تراویح پڑھنا  ایک الگ سنت ہے، اگر کسی نے رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن مجید پڑھ کر یا سن کر مکمل کرلیا تو اب  باقی تراویح وہ "الم تر" کے ساتھ یعنی سورۃ تراویح پڑھ سکتا ہے، اور اس کو دونوں سنتوں کے عمل کا ثواب مل جائے گا، "الم تر "سے تراویح  پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ پہلے ایک قرآن ختم کرلینا چاہیے، بلکہ فقہاء کرام رحمہم اللہ نے یہ لکھا ہے کہ اگر کسی جگہ حافظ نہ ملتا ہو یا حافظ تو ہو لیکن وہ اجرت کے بغیر  تراویح نہ پڑھاتا ہوتو اس وقت  ''الم تر''  یعنی سورۃ تراویح پڑھی جائے، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ "الم تر کیف"  سے تراویح پڑھنا  جائز ہے، اس پر نکیر کرنا قطعاً درست نہیں ہے۔

"الم تر کیف" سے تراویح پڑھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تراویح کی پہلی دس رکعتوں میں قرآن مجید کی آخری دس سورتیں پڑھیں  اور پھر آخری دس  میں دوبارہ ان سورتوں کر پڑھ لے،   اور اگر کوئی ان کے علاوہ کوئی اور سورۃ پڑھنا چاہے یا ایک بڑی سورت سے ہر رکعت میں چند آیات پڑھ لے تب بھی جائز ہے۔

تاہم یہ خیال رہے کہ  سورۃ تراویح میں بہت جلد بازی سے کام نہ لے جیساکہ آج کل  بہت سی جگہوں پر ہوتا ہے، بلکہ نماز کے تمام ارکان کو صحیح طریقہ سے ادا کرے، اگر کوئی شخص سورت تراویح میں تو قباحت کا قائل نہ ہو، لیکن وہ سورت تراویح میں ایسی جلد بازی پر نکیر کرتاہو جس میں نماز کے ارکان صحیح طریقے سے ادا نہ ہوتے ہوں تو یہ درست ہوگا۔ 

''فتاوی شامی''  میں ہے: 
'' (والختم) مرةً سنةٌ ومرتين فضيلةٌ وثلاثاً أفضل. (ولا يترك) الختم (لكسل القوم)، لكن في الاختيار: الأفضل في زماننا قدر ما لا يثقل عليهم، وأقره المصنف وغيره. وفي المجتبى عن الإمام: لو قرأ ثلاثاً قصاراً أو آيةً طويلةً في الفرض فقد أحسن ولم يسئ، فما ظنك بالتراويح؟ وفي فضائل رمضان للزاهدي: أفتى أبو الفضل الكرماني والوبري أنه إذا قرأ في التراويح الفاتحة وآيةً أو آيتين لا يكره، ومن لم يكن عالماً بأهل زمانه فهو جاهل.

(قوله: الأفضل في زماننا إلخ)؛ لأن تكثير الجمع أفضل من تطويل القراءة، حلية عن المحيط. وفيه إشعار بأن هذا مبني على اختلاف الزمان، فقد تتغير الأحكام لاختلاف الزمان في كثير من المسائل على حسب المصالح، ولهذا قال في البحر: فالحاصل أن المصحح في المذهب أن الختم سنة، لكن لا يلزم منه عدم تركه إذا لزم منه تنفير القوم وتعطيل كثير من المساجد خصوصاً في زماننا، فالظاهر اختيار الأخف على القوم.
(قوله: وفي المجتبى إلخ) عبارته على ما في البحر: والمتأخرون كانوا يفتون في زماننا بثلاث آيات قصار أو آية طويلة حتى لا يمل القوم ولا يلزم تعطيلها، فإن الحسن روى عن الإمام أنه إن قرأ في المكتوبة بعد الفاتحة ثلاث آيات فقد أحسن ولم يسئ، هذا في المكتوبة فما ظنك في غيرها؟'' اه
ـ.(2/ 46، 47 باب الوتر والنوافل، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200262

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں