بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حیض کا خون رک جانے کے بعد غسل کرنے سے پہلے جماع کرنے کا حکم


سوال

کیا مرد اپنی بیوی سے حیض کے چھٹے دن غسل سے پہلے جماع کر لے جب کہ خون آنا 2 دن پہلے بند ہو چکا ہو حرام ہے؟ اگر حرام ہے تو کیا کفارہ ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون کی عادت اگر چار دن تھی اور چار دن بعد خون بند ہو گیا تو ایسی صورت میں چھٹے دن اُس سے ہم بستری کرنا جائز تھا، اس میں کوئی قباحت نہیں اگر چہ اس نے اب تک غسل نہیں کیا تھا، لیکن ایسا کرنا انتہائی نا مناسب ہے کہ اس صورت میں نمازیں قضا ہو گئیں۔

اور اگر اس خاتون کی عادت زیادہ دن کی تھی اور صرف چار دن میں ہی خون رُک گیا تو اس صورت میں شوہر کے لیے عادت کے دن پورے ہونے سے پہلے ہم بستری کرنا جائز نہیں تھا، البتہ  اگر چار دن بعد خون رک گیا اور اس کے بعد دس دن کے اندر بالکل نہیں آیا تو ہم بستری کرنے کی وجہ سے کوئی کفارہ لازم نہیں ہوا، توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويحل وطؤها إذا انقطع حيضها لاكثره) بلا غسل وجوباً بل ندباً. (وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لاقله) فإن لدون عادتها لم يحل، أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب بحر، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطا، وإن لعادتها، فإن كتابيةً حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه(أو يمضي عليها زمن يسع الغسل) ولبس الثياب". (1/294،ط:دارالفکر)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200760

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں