بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومت کا کارگو کے لاوارث مال کو نیلام کرنا اور ایسے مال کو خریدنے کا حکم


سوال

بعض لوگ اور ادارے "کارگو" (یعنی لوگوں کا بھاری بھر کم سامان ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچانے) کا کام کرتے ہیں، جن کو باقاعدہ حکومت کی طرف سے لائسنس بھی جاری ہوتے ہیں، یا وہ کسی طریقہ سے دوسروں کے لائسنس استعمال کررہے ہوتے ہیں، کارگو کے لوگ کبھی بد دیانتی کرتے ہیں کہ وہاں مثلاً سعودیہ سے لوگوں کا سامان وصول کرتے ہیں اور ان کا ایڈریس اور پہنچانے کی اجرت بھی وصول کرلیتے ہیں، مگر اس سامان کو یہاں پاکستان میں مالکان تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا نہیں کرتے، بلکہ ان کا سامان بندر گاہ پر لاوارث چھوڑ دیتے ہیں، چناں چہ وہ سامان کافی عرصہ تک وہیں پڑا رہتاہے، جب کوئی اسے نہیں اٹھاتا اور جگہ وغیرہ بھی تنگ پڑجاتی ہے تو پورٹ کا عملہ کبھی تو اس سامان کو سمندر کی نذر کردیتاہے اور کبھی اتنا پہچان کر کہ یہ فلاں ملک کا سامان ہے، ضائع نہ ہوجائے، اس ملک کی طرف روانہ کرکے وہاں کی حکومت کے سپرد کردیتاہے، چناں چہ وہ سامان جب ہمارے ملک کی بندرگاہ پر پہنچتاہے تو ہماری پورٹ کے افسران اپنے ملک میں یہ اعلان جاری کرتے ہیں کہ فلاں ملک سے لاوارث سامان آیا ہوا ہے جن کا ہو وہ وصول کرلے ورنہ فلاں تاریخ کے بعد نیلام کردیا جائےگا، چناں چہ مقررہ تاریخ کے بعد اس کی بولی لگنا شروع ہوجاتی ہے، پورے پورے کنٹینروں کا سودا ہوتاہے اور لاکھوں میں سودا ہوتاہے، نیز نیلامی میں وہ مال اس کی اصل قیمت کی بنسبت کافی کم داموں میں بیچا جاتاہے، اس لیے لوگ بھی اسے بہت رغبت سے خریدتے ہیں؛ کیوں کہ اس سے زیادہ منافع حاصل ہونے کی امید ہوتی ہے، اور کہا جاتاہے کہ اس مال کو بیچنے کے بعد حکومت اس کی آدھی قیمت بیت المال میں شامل کرتی ہے، اور آدھی قیمت لائسنس والے کو ادا کرتی ہے، اب اس تمام صورتِ حال کے بعد آپ حضرات سے درج ذیل چند سوالوں کا جواب مطلوب ہے:

1- کیا کسی بھی حکومت کا "کارگو" کے سامان کو نیلام وفروخت کرنا اسلامی نقطہ نظر سے جائز و درست ہے؟ جب کہ اہلِ حکومت کا صاحبِ لائسنس آدمی کے توسط سے اصل مجرموں تک اور پھر سامان کے مالکان تک پہنچنا ممکن بھی ہوتاہے، بلکہ بعض اوقات سامان پر مالکان کا ایڈریس بھی موجود ہوتاہے۔

2- کیا عام لوگوں کا ایسے مال کو خریدنا اور پھر آگے بیچنا شرعاً درست ہے؟ ایک آدمی نے ایسا مال دو کنٹینر خریدا، اس میں سے آدھے سے زائد مال آگے فروخت کردیا اور آدھے سے کم باقی ہے، تو ایسے آدمی کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

کارگو پر سامان لینے والے جب مالکان سے ان کا سامان دوسرے ملک پہنچانے کی ذمہ داری لیتے ہیں اور اس پر اجرت بھی وصول کرتے ہیں، تو ان کے ذمہ لازم ہوتا ہے کہ وہ سامان مطلوبہ جگہ تک پہنچائیں، اگر وہ سامان مطلوبہ جگہ تک نہ پہنچائیں اور خود اپنی کوتاہی یا بددیانتی کی بنا پر کہیں اور چھوڑدیں تو وہ گناہ گار ہوں گے اور اس مال کے ضامن بھی ہوں گے، اصل مالک سامان ضائع ہونے کی صورت میں ان سے ضمان وصول کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

اگر کارگو والے سامان بندرگاہ پر چھوڑ دیں اور وہاں کے پورٹ کا عملہ وہ سامان متعلقہ ملک پہنچادیں تو سامان وہاں پہنچے کے بعد سامان کا مالک معلوم نہ ہو اور کوئی اس کی ملکیت کا دعوی بھی نہ کرے تو  اس کا حکم ”لقطہ“ کا ہوگا، حکومت کے متعلقہ ادارے پر لازم ہے کہ وہ اس کی تشہیر کرے اور اس کے مالک کو تلاش کرے، اعلانات کرائے، اگر اس سامان پر ایڈریس لکھا ہوا ہویا کسی اور ذریعہ سے مالک کو تلاش کیا جاسکتا ہو تو مالک تک اس کی اطلاع  پہنچانا ضروری ہے، اس کو کسی اور فروخت کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ یہ غیر کا مال ہے۔

البتہ اگر مالک معلوم نہ ہو، تشہیر اور اعلانات کرانے کے باوجود سامان کا مالک اپنا مال لینے نہ آئے، اور ان سے رابطہ کی کوئی صورت نہ ہو، اور اعلان کے باوجود اتنی معتد بہ مدت گزرجائے  کہ ظن غالب کے مطابق مالک کی واپسی اب بظاہر ممکن نہ ہو تو  متعلقہ ادارہ  اس لقطہ کے سامان کو مناسب قیمت پر فروخت کرسکتا ہے، اور فروخت کرنے کے بعد اگر مالک آجائے تو رقم اس کو دے دیں، ورنہ اس کی رقم لاوارث، ضرورت مند، غربا اور فقراء پر صدقہ کردی جائے،یا ان کی ضرویات میں صرف کردی جائے۔

باقی جہاں تک اس سامان کی نیلامی کی صورت میں اس کے خریدنے کا حکم ہے تو اس میں  یہ تفصیل ہے کہ اگر خریدنے والے کو کسی متعین اشیاء کے بارے میں  یقینی طور پر   معلوم ہوکہ  یہ کسی اور کا مال ہے، اس کا مالک بھی معلوم ہے اوراس کی اجازت کے بغیر اس کو فروخت کیا جارہا ہے تو اس کے لیے  اصل مالک کی اجازت کے بغیر اس مال میں تصرف کرنا جائز نہیں ہوگا۔

اور اگر خریدار کو حکومت کی طرف سے نیلام کردہ سامان کے بارے میں اس صورتِ حال کا یقینی علم نہ ہو تو چوں کہ اس میں یہ احتمال موجود ہے  کہ لقطہ ہونے کی صورت میں متعلقہ ادارے نے اس کی تشہیر کرائی ہوگی اور مالک کو تلاش کیا ہوگا، اور مالک کے ملنے سے مایوسی کے بعد اس کو فروخت کیا جارہا ہے، یا یہ سامان کسی واجبی حق کی وصولیابی کے لیے نیلام کیا جارہا ہے مثلاً حکومت یا اس کے متعلقہ ادارے کے پاس گروی  رکھا ہوا سامان وغیرہ، اور خریدار کو یقینی طور پر اس کا علم بھی نہیں ہے تو اگر وہ یہ سامان خریدلے تو اس کی آمدنی کو ناجائز نہیں کہا جائے گا، البتہ اس کے خریدنے سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔

السنن الكبرى میں ہے:

" عن شرحبيل مولى الأنصار عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها ". (السنن الكبرى للبيهقي (5/ 548) کتاب البیوع، باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، ط: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان)

   البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 170):
"(قوله: وينتفع بها لو فقيراً وإلا تصدق على أجنبي ولأبويه وزوجته وولده لو فقيراً) أي ينتفع الملتقط باللقطة بأن يتملكها بشرط كونه فقيراً نظراً من الجانبين كما جاز الدفع إلى فقير آخر، وأما الغني فلايجوز له الانتفاع بها، فإن كان غير الملتقط فظاهر للحديث فإن لم يجئ صاحبها فليتصدق بها، والصدقة إنما تكون على الفقير كالصدقة المفروضة وإن كان الملتقط فكذلك ... وإنما فسرنا الانتفاع بالتملك؛ لأنه ليس المراد الانتفاع بدونه كالإباحة، ولذا ملك بيعها وصرف الثمن إلى نفسه كما في الخانية أطلق في عدم الانتفاع للغني فشمل القرض ولذا قال في فتح القدير وليس للملتقط إذا كان غنياً أن يتملكها بطريق القرض إلا بإذن الإمام وإن كان فقيرا فله أن يصرفها إلى نفسه صدقةً لا قرضاً اهـ".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 390):
"قلت: وسيجيء في الحجر أنه يباع ماله لدينه عندهما وبه يفتى وحينئذ فلا يتأبد حبسه فتنبه.
(قوله: وحينئذ فلايتأبد حبسه) أي على قولهما، وكذا على قوله إن كان ماله غير عقار ولا عرض بل كان من الأثمان، ولو خلاف جنس الدين كما قدمناه".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 387):
" لايبيع القاضي عرضه ولا عقاره للدين خلافاً لهما، وبه أي بقولهما يبيعهما للدين يفتى، اختيار، وصححه في تصحيح القدوري ويبيع كل ما لايحتاجه للحال اهـ".

    وفیہ ایضاً:

"وفيه: الحرام ينتقل، فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاه وأخرجه إلينا ملكه وصح بيعه، لكن لايطيب له ولا للمشتري منه".

 (قوله: الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريباً (قوله: ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئاً؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده على الحربي؛ لأن وجوب الرد على البائع إنما كان لمراعاة ملك الحربي ولأجل غدر الأمان، وهذا المعنى قائم في ملك المشتري كما في ملك البائع الذي أخرجه".  (5/ 98، کتاب البیوع،باب البیع الفاسد ، مطلب الحرمۃ تتعدد، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں