بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

احرام سے حلال ہوتے وقت حلق لازم ہونے کی صورت میں مشین لگانا


سوال

اگر کوئی شخص پہلے عمرہ میں سر کے بال مشین سے کاٹے اور چند دنوں بعد دوسرا عمرہ کرے اور بال انگلی کے پور سے چھوٹے ہوں،  اور پھر مشین سے کاٹے تو احرام سے نکل جائے گا یا دم لازم ہوگا؟  اگر دم لازم آتا ہو تو  اگر عمرہ کے ایک ہی سفر میں تین چارعمروں میں اس طرح پور سے  چھوٹے بالوں پر مشین لگائی  ہو تو سب کی طرف سے ایک دم کافی ہوگا یا ہر عمرہ کی الگ دم دینا پڑے گا جب کہ وہ اپنے ملک پاکستان واپس آیا ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ جب مذکورہ شخص کے بال انگلی کے پورے سے  چھوٹے تھے  تو  اس کے لیے استرے سے (کم از کم چوتھائی) سر منڈوانا  لازم تھا،  قصر کروانا جائز  نہیں تھا. اب  اسے دم دینا لازم ہے،  اور چوں کہ کئی عمروں میں اسی طرح کیا ہے تو  جتنے عمروں میں اس طرح کیا ہے اتنے دم لازم ہوں گے، اس لیے کہ ہر عمرہ الگ عبادت ہے۔ پاکستان آنے کے بعد کسی بھی زائر کے ہاتھ یا سعودی عرب میں مقیم کسی شخص کو رقم بھجواکر حدودِ حرم میں دم دینے سے ادا ہوجائے گا، ایک ساتھ سب نہیں دے سکتا تو وقفے وقفے سے بھجوادے، تاہم جلد از جلد دم ادا کرنے کا اہتمام کرے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا جاء وقت الحلق ولم يكن على رأسه شعر بأن حلق قبل ذلك أو بسبب آخر ذكر في الأصل أنه يجري الموسى على رأسه؛ لأنه لو كان على رأسه شعر كان المأخوذ عليه إجراء الموسى، وإزالة الشعر فما عجز عنه سقط وما لم يعجز عنه يلزمه، ثم اختلف المشايخ في إجراء الموسى أنه واجب أو مستحب، والأصح أنه واجب، هكذا في المحيط".(1/231، الباب الرابع فیما یفعله المحرم  بعد الإحرام ، ط: رشیدیه)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما التقصير فالتقدير فيه بالأنملة؛ لما روينا من حديث عمر - رضي الله عنه -، لكن أصحابنا قالوا: يجب أن يزيد في التقصير على قدر الأنملة؛ لأن الواجب هذا القدر من أطراف جميع الشعر، وأطراف جميع الشعر لايتساوى طولها عادةً بل تتفاوت فلو قصر قدر الأنملة لايصير مستوفياً قدر الأنملة من جميع الشعر بل من بعضه، فوجب أن يزيد عليه حتى يستيقن باستيفاء قدر الواجب فيخرج عن العهدة بيقين". (2 / 141، فصل مقدار واجب الحلق والتقصير، ط: سعید)             

فتاوی شامیمیں ہے:

"(أو حلق في حل بحج) في أيام النحر، فلو بعدها فدمان (أو عمرة) لاختصاص الحلق بالحرم.

(قوله: أو حلق في حل بحج أو عمرة) أي يجب دم لو حلق للحج أو العمرة في الحل لتوقته بالمكان، وهذا عندهما خلافاً للثاني (قوله: في أيام النحر) متعلق بحلق بقيد كونه للحج، ولذا قدمه على قوله: أو عمرة فيتقيد حلق الحاج بالزمان أيضاً، وخالف فيه محمد، وخالف أبو يوسف فيهما، وهذا الخلاف في التضمين بالدم لا في التحلل فإنه يحصل بالحلق في أي زمان أو مكان فتح. وأما حلق العمرة فلايتوقت بالزمان إجماعاً، هداية، وكلام الدرر يوهم أن قوله: في أيام النحر قيد للحج والعمرة، وعزاه إلى الزيلعي مع أنه لا إيهام في كلام الزيلعي كما يعلم بمراجعته (قوله: فدمان) دم للمكان ودم للزمان ط (قوله: لاختصاص الحلق) أي لهما بالحرم وللحج في أيام النحر ط". (2/554، باب الجنایات، ط: سعید)

البحر الرائق(۲۱/۳):

’’وقید التداخل بکونه من جنس واحد لأنه لو قلم أظافیر یده وحلق ربع رأسه وطیب عضواً فإنه یلزمه لکل جنایة دم، سواء اتحد المجلس أو اختلف اتفاقاً‘‘.
وفي المحیط البرهاني(۴۳۶/۳):

"ولو اختلف الأفعال حقیقةً بأن جامع، وتطیب ولبس المخیط ألیس أنه یلزمه لکل فعل دم".

في الهدایة(۲۹۱/۱):

"وإن قص أظافیر یدیه ورجلیه فعلیه دم؛ لأنه من المحظورات… ولایزاد علی دم إن حصل في مجلس واحد؛ لأن الجنایة من نوع واحد، فإن کان في مجالس فکذلك عند محمد؛ لأن مبناها علی التداخل، فأشبه کفارة الفطر إلا إذا تخللت الکفارة لارتفاع الأولی بالتکفیر، وعلی قول أبي حنیفة وأبي یوسف یجب أربعة دماء إن قلم في کل مجلس یداً أو رجلاً لأن الغالب فیه معنی العبادة فیتقید التداخل باتحاد المجلس کمافي آي السجدة". 
وفي حاشیة (صـ۲۹۶):

"بخلاف قلم الأظفار حیث اعتبرنا هناك اتحاد المجلس؛ لأن الجنس هناك وان اتحد ذاتاً فقد اختلف محلاً فاعتبرنا اتحاد المجلس لیترجح جانب الاتحاد". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200461

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں