بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد دوبارہ گھر بسانا چاہتے ہیں


سوال

میرے دوست نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی ہیں، اس کے بعد وہ الگ ہوگئے ہیں اور چھ مہینوں سے الگ الگ رہے ہیں، اب وہ دوبارہ ایک ساتھ ہونا چاہتے ہیں۔ میں اپنے دوست کے لیے حلالہ کرنا چاہتاہوں، کیوں کہ وہ دونوں میاں بیوی اور ان کے چار بچے کافی پریشانی میں ہیں۔ میں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا میں اپنے دوست کی مدد کی خاطر حلالہ کرسکتاہوں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں تین طلاق ایک ساتھ دینا انتہائی ناپسندیدہ اور ممنوع ہے، تاہم ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، شرعی حکم یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان نباہ کی صورت نہ ہو تو  ایسے طہر (پاکی کے ایام) میں ایک طلاق دے کر چھوڑ دے جس  میں صحبت نہ کی ہو، اور عدت گزرنے تک رجوع نہ کرے، عدت گزرنے کے ساتھ ہی عورت نکاح سے نکل کر اپنے فیصلے میں آزاد ہوجائے گی، اس صورت میں اگر زوجین میں سے کسی کو بھی ندامت و پشیمانی ہوگی انہیں رجوع کا حق رہے گا، چاہے عدت کے دوران انہیں احساس ہوجائے، اس صورت میں صرف زبانی یا عملی رجوع ہی کافی ہوگا، اور عدت گزرنے کے بعد شرعی گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح کافی ہوگا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک طلاق دے، دوسرے طہر میں دوسری طلاق دے، تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے، اور اس دوران بیوی سے تعلق قائم نہ کرے، تیسرے طہر کے بعد ایام گزرتے ہی وہ عورت بائنہ ہوجائے گی، اس طریقے میں بھی عدت مکمل ہونے تک رجوع کا حق رہتاہے،  لیکن پھر بھی جب شوہر  ہر طہر میں ایک طلاق دے رہاہوتاہے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ یہ جذباتی فیصلہ نہیں ہے، بلکہ شعوری طور پر سوچ  وبچار کے بعد مرد بیوی کو نکاح سے نکال رہاہے۔

اگر کوئی شخص ان شرعی احکام و رعایات کا فائدہ نہ اٹھائے اور جذباتی فیصلہ کرتے ہوئے تین طلاقیں ایک ساتھ دے دے تو اسے حق نہیں کہ وہ عدت کے دوران رجوع کرے یا تجدیدِ نکاح کے ذریعے رشتہ دوبارہ استوار کرے، ایسی صورت میں عورت عدت گزارنے کے بعد اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتی ہے، ایسے زوجین کے لیے فیصلہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ اب باہم رجوع ہی نہ کریں؛ کیوں کہ وہ اتنے اہم رشتے کے معاملے میں جب حساس نہیں ہیں، اور ساری زندگی کا تعلق چند سیکنڈ کے جذبات کی نذر کردیتے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ وہ اب دوبارہ ساتھ نہ رہیں،  شوہر کی سزا بھی یہی ہے کہ جس نے اپنے اور عورت کے مستقبل کا سوچے سمجھے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کیا ہے اسے کسی صورت رجوع کا حق نہ دیا جائے، اور غیرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ رجوع نہ کرے۔

لہٰذا اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے اور پھر اس سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے اس کا نکاح  کسی دوسرے شخص سے اس شرط پر کرائے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے گا، ایسا کرنا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کرنے والے اور جو شخص ایسا کروا رہا ہے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے اور وہ عدت گزرنے کے بعد (پہلے شوہر کی شرکت کے بغیر) کسی دوسری جگہ طلاق دینے کی شرط کے بغیر نکاح کرے، اس کے بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ زن و شو کا تعلق قائم کرنے کے بعد اسے اتفاقی طور پر طلاق دےدے تو دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد  یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی۔

لہذا آپ کے لیے مذکورہ عورت سے اس کی عدت گزرنے کے بعد حلالہ کے ذکر یا شرط کے ساتھ نکاح کرنا درست نہیں ہے، بلکہ سخت گناہ کی بات ہے۔ البتہ اگر حلالہ کے ذکر اور شرط کے بغیر  آپ مذکورہ مطلقہ عورت سے اس کی عدت گزرنے کے بعد باقاعدہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں اور زن و شو کا تعلق قائم کرنے کے بعد اپنی مرضی سے انہیں طلاق دے دیں تو عدت گزارنے کے بعد وہ عورت اپنے سابقہ شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔

مسند أحمد میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحل والمحلل له". (8/ 266)

فتاوی شامی میں ہے :

"(وكره) التزوج للثاني (تحريمًا)؛ لحديث: لعن المحلل والمحلل له (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك (وإن حلت للأول)؛ لصحة النكاح وبطلان الشرط، فلايجبر على الطلاق، كما حققه الكمال، خلافًا لما زعمه البزازي، ومن لطيف الحيل قوله: إن تزوجتك وجامعتك أو أمسكتك فوق ثلاث مثلاً فأنت بائن، ولو خافت أن لايطلقها تقول: زوجتك نفسي على أن أمري بيدي، زيلعي. وتمامه في العمادية. (أما إذا أضمرا ذلك لا) يكره (وكان) الرجل (مأجورًا)؛ لقصد الإصلاح، وتأويل اللعن إذا شرط الأجر، ذكره البزازي". (الشامیة، كتاب الطلاق، باب الرجعة ۳/ ۴۱۵ ط:سعيد)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200293

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں