بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حقِ حضانت سے متعلق چند مسائل اور خیار التمییز کاحکم


سوال

1۔ کن حالات میں عورت کوبچی کی حضانت سے محروم کیا جاسکتاہے؟

2۔بچے اوربچی کی حضانت کی عمرکی حدکیاہے؟

3۔ ماں کے بعدخالہ، نانی یادادی کیوں حضانت کی حق دارہیں جب کہ حقیقی باپ موجودہو؟

 4۔ عورت علیحدگی کے بعددوسری شادی کرلےتوکیاوہ پہلے شوہر کی بیٹی اپنے پاس رکھ سکتی ہے؟  جب کہ بچی کا باپ اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہو؟

5۔  خیارالتمییزکی حقیقت کیاہے؟

جواب

1۔پرورش کرنے والی خاتون، والدہ ہو یا والدہ کے علاوہ نانی، دادی، خالہ وغیرہ ، کے لیے درج ذیل آٹھ شرائط ہیں:

  1. آزاد ہو ، لہذا باندی کو پرورش کا حق حاصل نہیں۔
  2. بالغہ ہو، لہذا نابالغ بچی کو پرورش کا حق حاصل نہ ہوگا۔
  3. عقل و شعور رکھتی ہو، لہذا مجنونہ اور پاگل عورت کو پرورش کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
  4. زیرِ پرورش بچہ /بچی  کی تربیت کے سلسلے میں اس پر اطمینان کیا جاسکتا ہو؛ تاکہ وہ اس کے پاس ہلاک نہ ہوجائے، مثلاً وہ گانے یا نوحے کو بطورِ پیشہ اختیار کرتی ہو اور  گھر سے باہر نکل جاتی ہو ، جس سے بچے/ بچی کی ہلاکت کا خوف ہو۔
  5. زیرِ پرورش بچے کی پرورش کرنے پر اسے قدرت و اختیار حاصل ہو، لہذا اگر وہ ایسی بیماری کا شکار ہے جس سے بچے کی ضروریات کو پورا کرنا ممکن نہ ہو تو وہ پرورش کی اہل نہ ہوگی۔
  6. وہ مرتدہ نہ ہو، یعنی دینِ اسلام قبول کرنے کے بعد اسے چھوڑنے والی نہ ہو، کیوں کہ مرتدہ کی سزا یہ ہے کہ اسے قید کیا جائےاور قید میں پڑی خاتون بچے کی پرورش نہیں کرسکتی۔
  7. اس عورت نے زیرِ پرورش بچے کے غیر محرم سے شادی نہ کی ہو، اگر عورت نے بچے کے غیر محرم سے نکاح کیا ہو تو س اسے پرورش کا حق ختم ہوجائے گا۔
  8. پرورش کرنے والی خاتون بچے کو اس شخص کے گھر میں نہ رکھے جو اسے ناپسند کرتا ہو۔

2۔سات سال تک بچے اور نو سال تک بچی کی پرورش کا حق والدہ کو حاصل ہوتا ہے، مذکورہ عمر کو پہنچ جانے کے بعد پرورش کا حق والد کو حاصل ہوتا ہے۔

3۔ بچہ سات سال تک اور بچی نو سال تک اپنے روزمرہ کی ضروریات کھانا،  پینا اور استنجا وغیرہ میں مدد اور تعاون کے محتاج ہوتے ہیں، یہ امور والدہ یا دوسری کوئی عورت بخوبی بجا لاسکتی ہے، مرد کے لیے یہ امور سر انجام دینا آسان نہیں، لہذااگر بچے کی والدہ نہ ہو یا اس کا حق کسی وجہ سے ختم ہوگیا ہو تو  مذکورہ عمر تک بچے کی پرورش کا حق والدہ، نانی، دادی یا خالہ کو حاصل ہوگا، حقیقی والد کو نہیں۔

4۔ اگر عورت علیحدگی کے بعد بچی کے غیر محرم سے شادی کرے توپہلے شوہر  کی بیٹی کی پرورش کا حق  ختم ہوجائے  گا اور یہ حق نانی، دادی، بہنوں، خالاؤں یا پھوپھیوں کو حاصل ہوگا، لیکن اگر وہ بچی کے محرم سے شادی کرے تو اس کا حق ختم نہیں ہوگا، پہلے شوہر کی بیٹی کی پرورش کا حق اسے ہی حاصل ہوگا۔

5۔ ’’خیار التمییز‘‘  کا تصور  امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بچہ جب سنِ تمییز (وہ عمر جس میں وہ اچھے برے کی تمیز سمجھ جاتاہے) کو پہنچ جائے یعنی جب وہ سات سال کا ہوجائے تو اسے  اختیار دیا جائے کہ وہ والد اور والدہ میں سے جس کے پاس چاہے  رہے، ائمہ احناف کے نزدیک نابالغ بچے کے لیے ’’خیار التمییز‘‘ نہیں، بلکہ بچہ مذکورہ عمر (یعنی بچہ سات سال اور بچی نو سال) کے بعد بالغ ہونے سے پہلے والد کے پاس رہے گا، بالغ ہونے کے بعد وہ والد یا والدہ میں سے کس کے پاس رہے؟ اس سلسلے میں تفصیل یہ ہے:

  1. اگر لڑکی کنواری  اور وہ شعور کی عمر تک نہ پہنچی ہو تو وہ والد کے پاس ہی رہے گی۔
  2. اگر لڑکی کنواری  اور وہ شعور کی عمر تک پہنچ چکی  ہو تو وہ والد یا والدہ میں سے جس کے پاس چاہے رہے۔
  3. اگر وہ ثیبہ ہو اور اس کی ذات پر بھروسہ ہو تو اسے اختیار ہے، جہاں چاہے رہے۔
  4. اگر وہ ثیبہ ہو اور اس کی ذات پر بھروسہ نہ ہو تو اسے اختیار نہ ہوگا، بلکہ والد کے پاس ہی رہے گی۔
  5. اگر لڑکا بالغ ہوجائے، اسے عقل و شعور حاصل ہو اور وہ معاملات میں اپنی رائے قائم کرسکتا ہو تو  اسے اختیار ہے کہ جہاں چاہے رہے۔
  6. اگر لڑکے کی ذات پر بھروسہ نہ ہو تو وہ والد کے پاس ہی رہے گا۔

 (1) الفتاوى الهندية (11 / 315):

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به، كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقةً أو مغنيةً أو نائحةً فلا حق لها، هكذا في النهر الفائق".

الفتاوى الهندية  (11 / 326):

"ولا حضانة لمن تخرج كل وقت وتترك البنت ضائعةً، كذا في البحر الرائق".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 555):

"قال الرملي: ويشترط في الحاضنة أن تكون حرةً بالغةً عاقلةً أمينةً قادرةً، وأن تخلو من زوج أجنبي، وكذا في الحاضن الذكر سوى الشرط الأخير، هذا ما يؤخذ من كلامهم. اهـ".

شرح الأحكام الشرعية في الأحوال الشخصية، (3 / 52):

"والحاضنة يشترط فيها ثمانية شروط:

أولاً: أن تكونَ حرَّةً؛ لأن الرقيقةَ مشغولةٌ بخدمة سيدها؛ فلايمكنها القيام بتربيّة الولد.

ثانياً: أن تكون بالغةً؛ لأن القاصرةَ محتاجةٌ إلى مَن يكفلها؛ فكيف تكفل غيرها.

ثالثاً: أن تكون عاقلةً؛ لأن المجنونةَ لاتحفظ الولد، بل يخشى عليه منها الهلاك.

رابعاً: أن تكون أمينةً على المحضون وتربيته بحيث لايضيع الولد عندها بسبب اشتغالها عنه بالخروج إلى ملاهي الفسوق، بأن تكون مغنَّيةً أو نائحةً، أو متهتكةً تهتكاً يترتب عليه ضياع الولد.

خامساً: أن تكون قادرةً على خدمته، فلو كان بها مرضٌ يعجزها عن القيام بمصالحه لم تكن أهلاً للحضانة.

سادساً: أن لاتكون مرتدَّةً: أي خارجةً عن دين الإسلام بعد أن اعتنقته؛ لأن جزاءها الحبس حتى تسلم، ومَن كانت حالتها هكذا فلاتقدر على خدمة الولد.

سابعاً: أن لاتكون متزوِّجةً بغير رحم محرَّم للمحضون؛ لأن الأجنبيَّ ينظر إليه شزراً، ويبطن له الكراهة ويضمر السوء لأمّه؛ لأنه يظنّ أنها تطعمه من ماله، وربّما اشتدّ بين أمّه وزوجها الخلاف، ويترتب على ذلك ما لاتحمد عقباه.

ثامناً: أن لاتمسكَه الحاضنةُ في بيت مَن يبغضه ويكرهه؛ لأن إمساكَها إيّاه عنده يترتّب عليه ضرر الولد وضياعه، والمقصود من الحضانة حفظ الولد والقيام بخدمته".

 (2) ( الدر المختار، كتاب الطلاق، باب الحضانة ۳/ ۵٦٦ إلى ۵٦۹ ط: سعيد):

"(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا و أقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى وبنت إحدى عشرة مشتهاة اتفاقا زيلعي (ولا خيار للولد عندنا مطلقًا) ذكرًا كان، أو أنثى، خلافًا للشافعي، قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك، مؤيد زاده معزيًا للمنية. وأفاده بقوله: (بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرًا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبًا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونةً على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء، بحر عن الظهيرية".

الفتاوى الهندية - (11 / 327):

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين. وقال القدوري: حتى يأكل وحدَه، ويشرب وحدَه، ويستنجي وحدَه. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد رحمه الله تعالى: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح، هكذا في التبيين".

(3) بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (8 / 234):

" وأما بيان من له الحضانة، فالحضانة تكون للنساء في وقت، وتكون للرجال في وقت، والأصل فيها النساء؛ لأنهنّ أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار، ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر".

البناية شرح الهداية - (5 / 646):

"لأن هذه الولاية تستفاد من قبل الأمهات، فإن لم تكن، فأم الأب أولى من الأخوات؛ لأنها من الأمهات، ولهذا تحرز ميراثهن السدس، ولأنها أوفر شفقة للأولاد".

 (4) (قوله: بغير محرم) أي من جهة الرحم فلو كان محرمًا غير رحم كالعم رضاعًا، أو رحمًا من النسب محرمًا من الرضاع كابن عمه نسبًا هو عمه رضاعًا فهو كالأجنبي".

(5) فتح القدير لكمال بن الهمام (9 / 407):

"( قوله: ولا خيار للغلام ) يعني إذا بلغ السن الذي يكون الأب أحق به كسبع مثلًا أخذه الأب ولايتوقف على اختيار الغلام ذلك، و عند الشافعي يخير الغلام في سبع أو ثمان، وعند أحمد وإسحاق يخير في سبع".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (8 / 244):

"ولا خيار للغلام والجارية إذا اختلف الأبوان فيهما قبل البلوغ عندنا، وقال الشافعي: يخير الغلام إذا عقل التخيير. واحتج بما روي عن أبي هريرة رضي الله عنه أن امرأة أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: زوجي يريد أن ينتزع ابنه مني، وإنه قد نفعني وسقاني من بئر أبي عنبة، فقال: { استهما عليه، فقال الرجل: من يشاقني في ابني؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم للغلام: اختر أيهما شئت، فاختار أمه، فأعطاها إياه}؛ ولأن في هذا نظر للصغير؛ لأنه يحتاج الأشفق. ولنا ما روينا عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال للأم: { أنت أحق به ما لم تنكحي ولم يخير}؛ ولأن تخيير الصبي ليس بحكمة؛ لأنه لغلبة هواه يميل إلى اللذة الحاضرة من الفراغ والكسل والهرب من الكتاب وتعلم آداب النفس ومعالم الدين فيختار شر الأبوين وهو الذي يهمله ولايؤدبه.

وأما حديث أبي هريرة رضي الله عنه فالمراد منه التخيير في حق البالغ؛ لأنها قالت: نفعني وسقاني من بئر أبي عنبة، ومعنى قولها: نفعني أي: كسب علي، والبالغ هو الذي يقدر على الكسب. وقد قيل: إن بئر أبي عنبة بالمدينة لايمكن الصغير الاستقاء منه، فدل على أن المراد منه التخيير في حق البالغ، ونحن به نقول: إن الصبي إذا بلغ يخير. والدليل عليه ما روي عن عمارة بن ربيعة المخزومي أنه قال: غزا أبي البحرين؛ فقتل، فجاء عمي ليذهب بي، فخاصمته أمي إلى علي بن أبي طالب رضي الله عنه، ومعي أخ لي صغير، فخيرني علي رضي الله عنه ثلاثًا، فاخترت أمي فأبى عمي أن يرضى، فوكزه علي رضي الله عنه بيده وضربه بدرته، وقال: لو بلغ هذا الصبي أيضًا خيّر، فهذا يدل على أن التخيير لايكون إلا بعد البلوغ".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  (6 / 2210):

"قال ابن الهمام: إذا بلغ الغلام السن الذي يكون الأب أحق به كسبع مثلًا أخذه الأب، ولايتوقف على اختيار الغلام ذلك، وعند الشافعي يخير الغلام في سبع أو ثمان، وعند أحمد وإسحاق يخير في سبع لهذا الحديث".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 567):

"(ولا خيار للولد عندنا مطلقًا) ذكرًا كان، أو أنثى خلافًا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيًا للمنية، وأفاده بقوله: (بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرًا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبًا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونةً على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء، بحر عن الظهيرية.

(والغلام إذا عقل واستغنى برأيه ليس للأب ضمه إلى نفسه) إلا إذا لم يكن مأمونًا على نفسه فله ضمه لدفع فتنة، أو عار، وتأديبه إذا وقع منه شيء، ولا نفقة عليه إلا أن يتبرع، بحر". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200176

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں