بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوئی کا غائب ہوجانا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جہرہ انور کی روشنی سے کمرے میں روشنی ہوجانا


سوال

 ایک واقعہ بیان کیا جاتاہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ کی سوئی گم ہو گئی تو آپ رضی اللہ عنہا  اس کو ڈھونڈنے لگیں،  رات کا وقت تھا سوئی ان  کو نہ مل سکی،  اسی اثنا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ان کے  نور کی وجہ سے وہ سوئی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کو مل گئی ۔

 سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعہ درست ہے؟

جواب

مذکورہ واقعہ "تاریخمدينة دمشق لابن عساکر" میں منقول ہے:

"أنبأنا مسعدة بن بكر الفرغاني بمرو، و أنا سالته فأملى علي بعد جهد، أنبأنا محمد بن أحمد بن أبي عون، أنبأنا عمار بن الحسن، أنبأنا سلمة بن الفضل بن عبدالله عن محمد بن إسحاق بن يسار عن يزيد بن رومان وصالح بن كيسان عن عروة بن الزبير عن عائشة قالت: "استعرت من حفصة بنت رواحة إبرة كنت أخيط بها ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسقطت مني الإبرة فطلبتها، فلم أقدر عليها، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فتبينت الإبرة من شعاع نور وجهه، فضحكت، فقال: "ياحميراء! لم ضحكت"؟ قلت: كان كيت وكيت، فنادى بأعلى صوته: "ياعائشة! الويل ثم الويل (ثلاثاً) لمن حرم النظر إلى هذا الوجه، ما من مؤمن ولا كافر إلا ويشتهي أن ينظر إلى وجهي". ( باب صفة خلقه و معرفة خلقه، ٣ / ٣١٠)

اسی طرح سے مذکورہ قصہ أبو نعيم الأصبهانينے اپنی کتاب دلائل النبوة ( ١١٩ ) میں، اور أبو العباس المقدسينے اپنی کتاب التخريج ( ١١ )میں، درج ذیل سند کے ساتھ نقل کی ہے:

"مسعدة بن بكر الفرغاني ، عن محمد بن أحمد ابن أبي عون ، عن عمار بن الحسن ، عن سلمة بن الفضل ، عن ابن إسحاق ، عن يزيد بن رومان ، عن صالح بن كيسان ، عن عروة ، عن عائشة رضي الله عنها..." الخ

مذکورہ روایت کی سند کا مدار ’’مسعد بن بکر الفرغانی‘‘  نامی راوی پر ہے، جس نے مذکورہ روایت بطریق محمد بن احمد بن ابی عون نقل کی  ہے، علماءِ جرح و تعدیل نے اس سند پر کلام کیا ہے اور اسے باطل و من گھڑت قرار دیتے ہوئے مسعد بن بکر کو جھوٹا قرار دیا ہے۔

لسان المیزان لابن حجر میں ہے:

"(مسعدة) بن بكر الفرغاني عن محمد بن أحمد بن أبي عون بخبر كذب، انتهى. ولم أقف على الخبر بعد ووجدت له حديثاً آخر، قال الدارقطني في غرائب مالك: حدثنا أبو سعيد مسعدة بن بكر بن يوسف الفرغاني قدم حاجاً قال: حدثنا الحسن بن سفيان قال: حدثنا أبو مصعب عن مالك عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما رفعه مثل المنافق مثل الشاة العائر الحديث، قال الدارقطني: هذا باطل بهذا الاسناد، والحسن وأبو مصعب ثقتان، ولكن هذا الشيخ توهمه، فمر فيه وانقلب عليه إسناده، والله أعلم". ( ٦ / ٢٢)

ميزان الإعتدال للحافظ الذهبيمیں ہے:

"[ مسعدة بن بكر الفرغاني ، عن محمد بن أحمد ابن أبي عون : بخبر كذب ] ( ٤/٢٩ ) ، والحافظ الذهبي يقصد بالخبر الكذب، الذي حدّث به مسعدة هي هذه القصة؛ لأنها الرواية الوحيدة عنه، وأنكرها كذلك في كتابه سير أعلام النبلاء، وقال: [ لم يصح ]". ( ٢/١٦٧ )

المصنوع في معرفة الحديث الموضوع للمزيمیں ہے: [ موضوع ] . ( ٢١٢ )

 فتح الباري لابن حجرمیں ہے :[ ليس بصحيح ] ، "بتصرف يسير" ( ٢/٤٤٤ )

المنار المنيف لابن القيممیں ہے :[ كذب مختلق ] . ( ٥٠ )

"الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة" لعبد الحي اللكنويمیں  مذکورہ قصہ نقل کرنے کے بعد  مصنف رحمہ اللہ نے ایسے قصے آگے نقل کرنے والے کو غنودگی میں مبتلا شخص قرار دیا ہے:

"[ وهذه القصة وإن كانت مذكورةً في معارج النبوة، وغيرها من كتب السير الجامعة للرطب واليابس، فلايستند بكل ما فيها إلا النائم والناعس]". ( ٤٥ - ٤٦ )

مذکورہ بالا قصہ محدثین کے اقوال کی روشنی میں درست نہیں؛ لہذا اس کی نسبت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں