بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حساب کر کے مستقبل کے بارے میں بتانا


سوال

اگر کوئی شخص صفحہ پر حساب لگا کر یہ بتا تا ہو کہ فلاں کام آپ کے لیےکر نا ٹھیک ہے یا نہیں ۔ مثل سفر پر جانا یا دوکان یا مکان لینا یا کوئی اور کام کرنا ۔ تو ایسے شخص سے پوچھ کر کام کرنا کیسا ہے?  اور بتانے والے کا کیا حکم ہے؟  شریعت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں!

جواب

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فال نکالنے والوں کے پاس جانے اور ان سے مستقبل کے بارے میں دریافت کرنے سے بھی منع فرمایا اور پوچھنے کی صورت میں اخروی نقصان سے آگاہ کیا ہے، جیساکہ ایک روایت میں ہے کہ "جس نے فال نکالنے والے سے سوال کیا تو اس کی چالیس راتوں تک نماز قبول نہیں کی جاتی"۔  ایک اور روایت میں ہے کہ "جو شخص فال نکانے والے کی پاس گیا اور اس کی بات کی تصدیق کی تو اس نے ان تمام امور کا انکار (کفر) کردیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے"۔ سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے کہ "وہ بری (آزاد) ہو گیا ان سب سے جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا"۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں فال نکالنا یا نکلوانا جائز نہیں۔

"لقول النبي صلى الله عليه وسلم: من أتى كاهناً أو عرافاً فصدّقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم. رواه أحمد. وفي حديث أحمد والترمذي عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أتى كاهناً فصدّقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد. ورواه أبو داود بلفظ: فقد برئ مما أنزل على محمد". في المشکاة: "عن صفية عن بعض أزواج النبي صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: « من أتى عرافاً فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلةً». رواه مسلم". (٢/ ٤١١)

شرح النووي على مسلم:

"والعراف هو الذي يدعي معرفة الشيء المسروق ومكان الضالة ونحوهما من الأمور، هكذا ذكره الخطابي في معالم السنن في كتاب البيوع، ثم ذكره في آخر الكتاب أبسط من هذا فقال: إن الكاهن هو الذي يدعي مطالعة علم الغيب ويخبر الناس عن الكوائن، قال: وكان في العرب كهنة يدعون أنهم يعرفون كثيراً من الأمور، فمنهم من يزعم أن له رفقاء من الجن وتابعة تلقي إليه الأخبار، ومنهم من كان يدعي أنه يستدرك الأمور بفهم أعطيه، وكان منهم من يسمى عرافاً وهو الذي يزعم أنه يعرف الأمور بمقدمات أسباب يستدل بها على مواقعها كالشيء يسرق، فيعرف المظنون به السرقة، وتتهم المرأة بالريبة، فيعرف من صاحبها ونحو ذلك من الأمور، ومنهم من كان يسمي المنجم كاهناً، قال: وحديث النهي عن إتيان الكهان يشتمل على النهي عن هؤلاء كلهم وعلى النهي عن تصديقهم والرجوع إلى قولهم، ومنهم من كان يدعو الطبيب كاهناً، وربما سموه عرافاً، فهذا غير داخل في النهي. هذا آخر كلام الخطابي. قال الإمام أبو الحسن الماوردي من أصحابنا في آخر كتابه الأحكام السلطانية: ويمنع المحتسب من يكتسب بالكهانة واللهو، ويؤدب عليه الآخذ والمعطي، والله أعلم". (١٠ / ٢٣٢، ط: داراحیاء التراث العربی) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200173

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں