بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حد زنا کے نفاذ کا اختیار کس کو ہے؟


سوال

اگر کوئی محرمات کے ساتھ زنا کرلے، مثلاً ساس سے زنا کرلے یا بیٹی سے زنا کرلے تو اس کی سزا کیا ہے؟ اور عصر حاضر میں تعزیر کا اختیا ر کس کو ہے؟

جواب

’’زنا‘‘ کبیرہ گناہوں میں سے سخت ترین گناہ ہے، پھر اگر کسی محرم سے کیا جائے تو اس گناہ کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے، تاہم ’’زنا‘‘ کی شرعی سزا (حد) مقرر ہے، اور کوئی شخص چاہے محرمات میں سے کسی کے ساتھ اس فعل کا ارتکاب کرے یا اجنبیہ کے ساتھ  دونوں صورتوں میں زانی   فاسق وفاجرہے، بصورتِ ثبوتِ جرم شریعتِ محمدیہ میں اس پر ’’حدِّ زنا‘‘ کانافذکرنالازم ہے، لیکن اس کے نفاذ (اور تعزیرات کے نفاذ) کا اختیار اسلامی حکومت اور عدلیہ کوہے۔

خدانخواستہ اگر ایسا واقعہ پیش آجائے (والعیاذباللہ) تو مسلمانوں پر  لازم ہے کہ زجراً و توبیخاً ایسے بدکردارشخص سے تعلقات، سلام کلام،میل جول وغیرہ ترک کردیں اور جب تک وہ توبہ نہ کرے اور اس کی توبہ کا خلوص قرائن سے معلوم نہ ہوجائے یا حکومت وعدلیہ اس پر سزا نافذ کردے ، اس وقت تک اس سے ترکِ تعلقات قائم رکھیں۔ 

نیز بیٹی یاساس سے اگر زنا ہوگیا (والعیاذ باللہ) تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی، یعنی آدمی پر اس کی بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی،اور فوری جدائی لازم ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200758

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں