بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث میں عورت کی محبوبیت کے ذکر کی حکمت


سوال

حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا، مجھے دنیا میں عورتوں اور خوشبو سے محبت دی گئی اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی، حضرت حسن سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں دنیا کی عیش میں سوائے عورتوں اور خوشبو کے کچھ نہیں چاہتا۔ میموں سے روایت ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دنیا کی عیش میں سے سوائے عورت اور خوشبو کے کچھ حاصل نہیں کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی تیں چیزیں پسند تھیں، کھانا، عورتیں اور خوشبو، آپ نے دو چیزیں پائیں، ایک نہیں پائی، عورتیں اور خوشبو پائی، کھانا نہیں پایا۔

سوال یہ ہے کہ  ایک  ملحد نے ان احادیث کوسامنے رکھتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے ،میں اسے کیسے ان باتوں پرقائل کروں یاسمجھاوں؟

جواب

مذکورہ احادیث اوراس طرح کی دیگرروایات سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں۔اوران کاحاصل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب امورمیں سے ایک عورتیں بھی تھیں،ازواج مطہرات کی کثرت موجودتھی اورخوشبوتوخودآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تھی،مگرکھانے پینے کے اعتبارسے قلت ضرورتھی،غزوہ خیبرتک تومہینوں مہینوں صرف کھجوراورپانی پرگزارہ ہوتاتھا،خیبرکے بعدکچھ سہولت ہوئی توسخاوت اورجودوایثارکی وجہ سے باوجودفراخی کے اپنی ذات کوکچھ فائدہ نہیں پہنچاتے تھے ،جوآتاسب دوسروں پرتقسیم ہوجاتاتھا،سائلوں کواورضرورت مندوں کودے دیاجاتاتھا،خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت کم اس سے مستقیدہوپاتے تھے،یہی مطلب ہے مندرجہ بالاحدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے اس قول کاکہ آپ کھانانہیں پاسکے۔جہاں تک عورتوں سے محبت کے ذکرکی بات ہے تویہ سمجھناچاہیے کہ عورتوں سے محبت کی وجہ جہاں انسانی فطری خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے وہاں خانگی ضرورت،گھریلوسہولتیں وغیرہ بھی ان سے ملتی ہیں،گھرکاپورانظام ان عورتوں سے قائم رہتاہے،رنجم وغم میں شریک ہی نہیں بلکہ ان کے برتاوسے زندگی کی الجھنیں ،پریشانیاں دورہونے میں بھی تعاون حاصل رہتاہے،غرض کہ دنیامیں صالح عورتیں جنت کی طرح راحت کاباعث ہوتی ہیں ،اس بناپرآپ کوعورتیں محبوب تھیں۔اعداء اسلام اورملحدین عرصے سے اس طرح کی باتوں کوبنیادبناکراسلام اورپیغمبراسلام پراعتراضات کرتے رہے ہیں یہ کوئی انوکھی بات نہیں،اس سلسلہ میں مفتی اعظم پاکستان مولانامفتی محمدشفیع رحمہ اللہ کی مذکورہ مسئلہ سے متعلق ایک تحریرنقل کی جاتی ہے ،امیدہے کہ تشفی بخش ہوگی:

 '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زاہدانہ زندگی اور اس کے ساتھ تعدد ازواج کا مسئلہ:

اعداء اسلام نے ہمیشہ مسئلہ تعدد ازواج اور خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کثرت ازواج کو اسلام کی مخالفت میں موضوع بحث بنایا ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی کو سامنے رکھا جائے تو کسی شیطان کو بھی شان رسالت کے خلاف وسوسہ پیدا کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ جس سے ثابت ہے کہ آپ نے سب سے پہلا نکاح پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ سے کیا، جو بیوہ سن رسیدہ صاحب اولاد اور دو شوہروں کے نکاح میں رہنے کے بعد آئی تھیں، اور پچاس سال کی عمر تک صرف اسی ایک سن رسیدہ بیوی کے ساتھ شباب کا پورا زمانہ گزارا۔ یہ پچاس سالہ دور عمر مکہ کے لوگوں کے سامنے گزرا۔ چالیس سال کی عمر میں اعلان نبوت کے بعد شہر میں آپ کی مخالفت شروع ہوئی، اور مخالفین نے آپ کے ستانے اور آپ پر عیب لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، ساحر کہا، شاعر کہا، مجنون کہا، مگر کبھی کسی دشمن کو بھی آپ کی طرف کوئی ایسی چیز منسوب کرنے کا موقع نہیں مل سکا، جو تقویٰ و شہارت کو مشکوک کر سکے۔پچاس سال عمر شریف کے گزرنے اور حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد حضرت سودہ نکاح میں آئیں یہ بھی بیوہ تھیں ۔ہجرت مدینہ اور عمرشریف چون سال ہو جانے کے بعد ۲ ہجری میں حضرت صدیقہ عائشہ کی رخصتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں ہوئی۔ اس کے ایک سال بعد حضرت حفصہ سے اور کچھ دنوں کے بعد حضرت زنیب بنت خزیمہ سے نکاح ہوا۔ یہ حضرت زینب چند ماہ کے بعد وفات پا گئیں ۔ ٤ ہجری میں حضرت ام سلمہ جو صاحب اولاد بیوہ تھیں آپ کے نکاح میں آئیں ۔ ۵ ہجری میں حضرت زینب بنت جحش سے بحکم خداوندی نکاح ہوا ، جس کا ذکر سورہ احزاب کے شروع میں آ چکا ہے۔ اس وقت آپ کی عمر شریف اٹھاون سال تھی۔ آخری پانچ سال میں باقی ازواج مطہرات آپ کے حرم میں داخل ہوئیں ۔ پیغمبر کی خانگی زندگی اور گھریلو معاملات سے متعلق احکام دین کا ایک بہت بڑا حصہ ہوتے ہیں ۔ ان نو ازواج مطہرات سے جس قدر دین کی اشاعت ہوئی اس کا اندازہ صرف اس سے ہو سکتا ہے کہ صرف حضرت صدیقہ عائشہ سے دو ہزار دو سو دس احادیث اور حضرت ام سلمہ سے تین سو اڑسٹھ احادیث کی روایت معتبر کتب حدیث میں جمع ہیں ۔ حضرت ام سلمہ نے جو احکام و فتاویٰ لوگوں کو بتلائے ان کے متعلق حافظ ابن قیم نے اعلام الموقعین میں لکھا ہے کہ اگر ان کو جمع کر لیا جائے تو ایک مستقل کتاب بن جائے، دو سو سے زیادہ حضرات صحابہ حضرت صدیقہ عائشہ کے شاگرد ہیں، جنہوں نے حدیث اور فقہ و فتاویٰ ان سے سیکھے ہیں ۔

اور بہت سی ازواج کو حرم نبوی میں داخل کرنے میں ان کے خاندان کو اسلام کی طرف لانے کی حکمت بھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے اس اجمالی نقشہ کو سامنے رکھیں تو کیا کسی کو یہ کہنے کی گنجائش رہ سکتی ہے کہ یہ تعدد اور کثرت ازواج معاذ اللہ کسی نفسانی اور جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے ہوا تھا، اگر یہ ہوتا تو ساری عمر تجرد یا ایک بیوہ کے ساتھ گزارنے کے بعد عمر کے آخری حصہ کو اس کام کے لئے کیوں منتخب کیا جاتا۔ یہ مضمون پوری تفصیل کے ساتھ، نیز اصل مسئلہ تعدد ازواج پر شرعی اور عقلی، فطری اور اقتصادی حیثیت سے مکمل بحث معارف القرآن جلد دوم سورہ نساء کی تیسری آیت کے تحت میں آ چکی ہے وہاں دیکھا جائے۔ (معارف جلد دوم، ص ۵۸۲ تا ۲۹۲)''

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143704200021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں