بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانے کے بعد پڑھی جانے والی دعائیں


سوال

کھانا کھانے کے بعد عموماً درج ذیل دعائیں پڑھی جاتی ہیں:

1- " الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِينَ" . (رواه أبو داود (3850)، والترمذي (3457)

2- "الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلَا مُوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا". (البخاري (5458)

3- "الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هَذَا وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ". (الترمذي (3458 ) وابن ماجه ( 3285 )

1-  حدیث نمبر 1 ضعیف ہے۔ (سند میں ”حجاج بن أرطاة“ متکلم فیہ راوی ہیں، اور ”ابن أخي سعید“ مجہول ہیں) کیا یہ بات درست ہے؟

2-  باقی دونوں احادیث کی سند کے بارے میں بھی بیان فرما دیں۔

3-  مندرجہ بالا احادیث میں سند کے اعتبار سے کون سی حدیث زیادہ قوی ہے؟   تاکہ میں اس کو یاد کرکے عمل کرسکوں!

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی نعمت کے حصول پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے, کھانے پینے کی اشیاء کو کھانا پینا، نگل لینا اور ہضم کرلینا بھی چوں کہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس لیے کھانے  پینے سے فراغت کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تعریف کرنے کی بہت بڑی فضیلت ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بے شک اللہ تعالی اپنے بندے سے راضی ہوتا ہے جب وہ ایک لقمہ کھائے تو اللہ کی تعریف کرے، یا پانی کا گھونٹ بھی پیے تو اللہ کی تعریف کرے‘‘. 

"وعن أنس بن مالك رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن الله ليرضى عن العبد أن يأكل الأكلة فيحمده عليها، ويشرب الشربة فيحمده عليها". (صحيح مسلم،كتاب الذكر والدعاء والتوبة ، باب استحباب حمدالله تعالى بعد الأكل والشرب:8.87 ، ط: دار الجيل)
اصل حکم اللہ کا شکر ادا کرنے کا ہے، اس میں الفاظ  کی کوئی خاص قید نہیں، اگر صرف ’’الحمدللہ‘‘  ہی کہہ دیا جائے تو سنت ادا ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:

مصنف عبد الرزاق، ط:المكتب الإسلاميبيروت۱۴۰۳ (10/ 424):

"أخبرنا عبد الرزاق عن معمر عن قتادة أن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: الحمد رأس الشكر، ما شكر الله عبد لايحمده".

البتہ احادیث میں وارد مسنون دعاؤں  کی مستقل برکت اور فضیلت ہے، اس لیے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ ان دعاؤں کا اہتمام کیا جائے۔

1- اول الذکر حدیث میں راوی ’’حجاج بن ارطاۃ‘‘  کبارِ تابعین میں سے فقیہ راوی ہیں، اکثر علماء ان کی توثیق بیان کرتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ یہ مدلس بھی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی وہ روایات جن کو ’’عن‘‘ کے ساتھ روایت کیا ہے، ضعیف ہیں، لیکن اس روایت کو کئی محدثین نے نقل کیا ہے اور کثرتِ طرق کی وجہ سے یہ روایت بھی حسن درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔

سير أعلام النبلاء طمؤسسةالرسالة۱۴۰۵هـ(7/ 68،69):

" حَجَّاجُ بنُ أَرْطَاةَ بنِ ثَوْرِ بنِ هُبَيْرَةَ النَّخَعِيُّ (4، م)

ابْنِ شَرَاحِيْلَ بنِ كَعْبٍ، الإِمَامُ، العَلاَّمَةُ، مُفْتِي الكُوْفَةِ مَعَ الإِمَامِ أَبِي حَنِيْفَةَ، وَالقَاضِي ابْنِ أَبِي لَيْلَى، أَبُو أَرْطَاةَ النَّخَعِيُّ، الكُوْفِيُّ، الفَقِيْهُ، أَحَدُ الأَعْلاَمِ.

 وُلِدَ: فِي حَيَاةِ أَنَسِ بنِ مَالِكٍ، وَغَيْرِهِ مِنْ صِغَارِ الصَّحَابَةِ.

وَكَانَ مِنْ بُحُوْرِ العِلْمِ، تُكُلِّمَ فِيْهِ لِبَأْوٍ فِيْهِ، وَلِتَدْلِيسِه، وَلِنَقصٍ قَلِيْلٍ فِي حِفْظِه، وَلَمْ يُتْرَكْ.

قَالَ سُفْيَانُ بنُ عُيَيْنَةَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي نَجِيْحٍ يَقُوْلُ: مَا جَاءنَا مِنْكُم مِثْلَهُ -يَعْنِي: حَجَّاجَ بنَ أَرْطَاةَ-.

 وَقَالَ حَفْصُ بنُ غِيَاثٍ: قَالَ لَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يَوْماً: مَنْ تَأْتُوْنَ؟ قُلْنَا: الحَجَّاجَ بنَ أَرْطَاةَ. قَالَ: عَلَيْكُم بِهِ، فَإِنَّهُ مَا بَقِيَ أَحَدٌ أَعْرَفُ بِمَا يَخْرُجُ مِنْ رَأْسِهِ مِنْهُ.

وَقَالَ حَمَّادُ بنُ زَيْدٍ: حَجَّاجُ بنُ أَرْطَاةَ أَقهَرُ عِنْدَنَا بِحَدِيْثِهِ مِنْ سُفْيَانَ.

وَقَالَ ابْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ: عَنْ جَرِيْرٍ: رَأَيتُ الحَجَّاجَ يَخْضِبُ بِالسَّوَادِ.

وَقَالَ أَحْمَدُ العِجْلِيُّ: كَانَ فَقِيْهاً، أَحَدُ مُفْتِي الكُوْفَةِ، وَكَانَ فِيْهِ تِيْهٌ، فَكَانَ يَقُوْلُ: أَهْلَكَنِي حُبُّ الشَّرَفِ.

وَلِيَ قَضَاءَ البَصْرَةِ، وَكَانَ جَائِزَ الحَدِيْثِ، إِلاَّ أَنَّهُ صَاحِبُ إِرسَالٍ، كَانَ يُرسِلُ عَنْ يَحْيَى بنِ أَبِي كَثِيْرٍ، وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ شَيْئاً، وَيُرسِلُ عَنْ مَكْحُوْلٍ، وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ، وَإِنَّمَا يَعِيبُوْنَ مِنْهُ التَّدلِيسَ.

رَوَى نَحَواً مِنْ سِتِّ مائَةِ حَدِيْثٍ.

 وَقَالَ ابْنُ أَبِي خَيْثَمَةَ: عَنْ يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ، قَالَ: هُوَ صَدُوْقٌ، لَيْسَ بِالقَوِيِّ، يُدَلِّسُ عَنْ مُحَمَّدِ بنِ عُبَيْدِ اللهِ العَرْزَمِيِّ، عَنْ عَمْرِو بنِ شُعَيْبٍ -يَعْنِي: فَيُسقِطُ العَرْزَمِيَّ-.

وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: صَدُوْقٌ، يُدَلِّسُ عَنِ الضُّعَفَاءِ، يُكْتَبُ حَدِيْثُهُ، فَإِذَا قَالَ: حَدَّثَنَا، فَهُوَ صَالِحٌ لاَ يُرْتَابُ فِي صِدْقِهِ وَحِفْظِه، وَلاَ يُحتَجُّ بِحَدِيْثِهِ، لَمْ يَسْمَعْ مِنَ الزُّهْرِيِّ، وَلاَ مِنْ هِشَامِ بنِ عُرْوَةَ، وَلاَ مِنْ عِكْرِمَةَ.

وَقَالَ ابْنُ المُبَارَكِ: كَانَ الحَجَّاجُ يُدَلِّسُ، فَكَانَ يُحَدِّثُنَا بِالحَدِيْثِ عَنْ عَمْرِو بنِ شُعَيْبٍ مِمَّا يُحَدِّثُهُ العَرْزَمِيُّ، وَالعَرْزَمِيُّ مَتْرُوْكٌ.

اس روایت کی سند کے دوسرے راوی ’’ابن اخی ابی سعید‘‘  حقیقت میں  مجہول راوی ہیں۔

خلاصہ یہ کہ ان وجوہات کی وجہ سے اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے۔ البتہ متنِ حدیث میں چوں کہ کسی قسم کی کوئی خرابی نہیں، اس لیے یہ دعا  پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور اسے پڑھنے سے نفسِ حمد کی سنت ادا ہوجائے گی۔

2- سوال میں مذکور دوسری حدیث صحیح اور اعلیٰ درجے کی ہے۔

صحيح البخاري طبع دار طوق النجاة ۱۴۲۲ھ (7/ 82):

"حدثنا أبو نعيم، حدثنا سفيان، عن ثور، عن خالد بن معدان، عن أبي أمامة: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا رفع مائدته قال: «الحمد لله كثيراً طيباً مباركاً فيه، غير مكفي ولا مودع ولا مستغنى عنه، ربنا)".

مذکورہ الفاظ کے ساتھ امام بخاری، امام نسائی، امام ابوداود، ابن خزیمہ اور ابن حبان رحمہم اللہ  نے نقل کیا ہے، ان میں"حمداً کثیراً " کے الفاظ کے بجائے "کثیراً" کے الفاظ ہیں، امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے "حمداً" کا اضافہ بھی روایت کیا ہے۔

3- سوال میں  مذکور تیسری حدیث ’’حسن‘‘ درجے کی ہے، جس کے متعلق امام ترمذی نے خود صراحت فرمائی ہے۔

"حدثنا محمد بن إسماعيل، قال: حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ، قال: حدثنا سعيد بن أبي أيوب قال: حدثني أبو مرحوم، عن سهل بن معاذ بن أنس، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أكل طعاماً فقال: الحمد لله الذي أطعمني هذا ورزقنيه من غير حول مني ولا قوة، غفر له ما تقدم من ذنبه.

هذا حديث حسن غريب، وأبو مرحوم اسمه: عبد الرحيم بن ميمون". (سنن الترمذي، أبواب الدعوات، باب ما يقول إذا فرغ من الطعام، طدار الغرب الإسلامي – بيروت ۱۹۹۸ع(5/ 385)

خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام احادیث میں سند کے لحاظ سے دوسری حدیث سب سے زیادہ قوی ہے، باقی دونوں روایات سے بھی  مذکورہ دعائیں ثابت ہو سکتی ہیں، اور انہیں بطورِ دعا پڑھا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں