بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث خود پڑھ کر عمل کرنا کیسا ہے؟


سوال

حدیث  خود سے  پڑھ کر اس پر عمل کرنا کیسا ہے؟  اور ایسا کرنے والے کو کیا فائدہ ہے؟  اور نہ کرنے والے کو کیا نقصان ہے؟

جواب

عام آدمی مختلف فیہ احادیث کے مابین یہ فرق نہیں کرسکتا کہ کون سی حدیث ناسخ ہے اور کون سی منسوخ؟  کون سی حدیث راجح ہے اور کون سی مرجوح؟  اور کون سی حدیث کا کیا درجہ ہے؟  اور اس کا محل اور مصداق کیا ہے؟ اس  لیے ہر کس و ناکس کو اس کی اجازت نہیں کہ احادیث  کو سامنے رکھ  کر  کسی ماہر مستند اہلِ حق عالم سے پڑھے اور سمجھے بغیر از خود عمل کرنا شروع کردے ، کیوں کہ مختلف الدلالۃ احادیث کو دیکھ کر اولاً دینی احکام میں تردد و اضطراب میں واقع ہونے کا اور ثانیاً اس سے نفسانی خواہشات کی پیروی کا اندیشہ ہے، اور بعض اوقات بظاہر متعارض نصوص کو دیکھ کر شیطانی وساوس و اوہام کو جگہ بنانے کا موقع مل جاتاہے، جس کی بنا پر ایمان سے ہاتھ دھونے کا خطرہ بھی رہتاہے،   جیسے کوئی نابینا شخص ہو جو راستے کے خطرات او رنشیب و فراز سے ناواقف ہو اورو وہ کسی بینا شخص کا ہاتھ پکڑے بغیر او رکسی جان کار  کی راہ نمائی کے بغیر پُرخطر راستے پر چل پڑے تو امکان اس کا ہے کہ وہ راستہ بھٹک جائے یا راستے کے گڑھے میں گر پڑے، ایسے نابینا کے لیے بچاؤ کا طریقہ یہی ہے کہ وہ کسی راہبر کی رہبری میں ہی راستہ طے کرے؛ تاکہ منزلِ مقصود تک پہنچ جائے، اسی طرح عام شخص کے لیے بھی حکم ہے کہ وہ کسی راسخ فی العلم رہبر کی اقتدا میں علم کے راستے پر چلے اور عمل کرے، یعنی ایسا بھی نہ کرے کہ راستہ ہی چھوڑ دے، اور یہ بھی نہ کرے کہ از خود چلنا شروع کردے، کیوں کہ منزلِ مقصود تک پہنچنا بھی ضروری ہے اور رہبری بھی ضروری ہے۔

اسے دوسرے الفاظ میں یوں سمجھا جاسکتاہے کہ اَحکام سے متعلقہ نصوص (قرآنِ کریم اور اَحادیثِ مقدسہ، بشمول آثارِ صحابہ و تابعین) کی مثال ’’قانون‘‘ اور ’’دستور‘‘ کی ہے، جیسے کسی ملک کے آئین اور قانون کی زبان سمجھنے کے باوجود وہاں کی عوام بلکہ خواص بھی اپنے مقدمات میں ماہر وکیل کا سہارا لیتے ہیں؛ کیوں کہ قانون کی زبان قانون دان ہی بہتر جانتاہے، وہ یہ سمجھتاہے کہ کس لفظ اور کس قید سے مدعی کو فائدہ پہنچ سکتاہے یا مدعیٰ علیہ کو، کس لفظ میں لچک ہے جس سے ملزم کو فائدہ پہنچ سکتاہے، اسے یہ علم ہوتاہے کہ قانون میں کب کب اور کس کس شق میں ترامیم اور اضافے ہوئے ہیں، نیز ان ترامیم اور اضافوں کا پس منظر بھی اس کے سامنے ہوتاہے، جس سے کیس کی نوعیت واضح ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح اَحکامِ دین بھی شرعی قانون ہیں، ان میں بھی باریکیاں اور جزئیات ہیں، ان اَحکام میں بھی بعض اوقات پس منظر (شانِ نزول، شانِ ورود) مدنظر رکھنا ضروری ہوتاہے، اسے نظر انداز کرتے ہوئے اگر ظاہری معنیٰ کو دیکھا جائے تو بسا اوقات مطلوب عکس ہوجاتاہے؛ لہٰذا فقہی  جزئیات اور باریکیاں وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کی زندگیاں اسی کام کے لیے وقف ہوں۔

اس لیے سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ جو حضرات قرآن وحدیث او ردین و شریعت کے ماہرین ہیں ان کی تشریحات پر اعتبار کیا جائے۔

اسلاف میں سے حضراتِ ائمہ اربعہ کی علمی بصیرت او راجتہادی شان پر دنیائے اہلِ علم کا اتفاق ہے اور ان کے مذاہب و مسائل کتابوں میں مدوّن ہیں، اس لیے ان چار ائمہ مجتہدین میں سے کسی ایک امام کی تقلید لازم و واجب ہے، اس لیے کہ فقہاءِ کرام احادیث کے معانی اور مفاہیم کو سب سے زیادہ جانتے ہیں، (جیساکہ امام ترمذی رحمہ اللہ اور دیگر محدثینِ کرام سے اس کا اعتراف منقول ہے) لہٰذا اپنے  ناقص فہم کے مقابلے میں ان مجتہدین کے فہم پر اعتماد کرنا بدرجہا بہتر ہے.

تقلید کیوں ضروری ہے؟ اور عدم تقلید کی صورت میں کیا نقصان ہے؟ اور ائمہ اربعہ میں سے ہی کسی ایک کی تقلید کیوں لازم ہے؟ وغیرہ وغیرہ ان تمام موضوعات کی تفصیل کے لیے دیکھیے:

’’اجتہاد و تقلید کا آخری فیصلہ‘‘ (افادات حضرت تھانوی رحمہ اللہ ترتیب: مولانا زید مظاہری صاحب) اور  ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘  جلد اول، ص/ ۲۷تا ۳۲  (از مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ ) فقط واللہ تعالی اعلم 


فتوی نمبر : 144012201136

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں