بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث انا مدینۃ العلم الخ کی تحقیق


سوال

کیا یہ حدیث صحیح ہے:  ’’میں علم کا شہر ہوں، علی اس کا دروازہ ہے‘‘؟ اور دوسرے الفاظ میں: ’’میں علم کا شہر ہوں، ابوبکر اس کی بنیاد ہے، عمر اس کی دیوار ہے، عثمان اس کی چھت ہے، علی اس کا دروازہ ہے‘‘؟

جواب

یہاں دو طرح کی حدیثیں ہیں:

1- میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ  ہیں ۔

2-  میں علم کا شہر ہوں، ابوبکر اس کی بنیاد ، عمر اس کی دیوار ، عثمان اس کی چھت ، علی اس کا دروازہ ہیں ۔

پہلی حدیث کے بارے میں محدثین کی آراء میںاختلاف ہے؛ ابورزعہ رازی ، ابن عدی ، مطین اور ابن حبان رحمہم اللہ  نے اسے باطل کہا ہے ، ابن الجوزی رحمہم اللہ نے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے، جب کہ دیگر حضرات نے اس حدیث کے ثبوت کا فیصلہ کیا ہے، خصوصاً علامہ سیوطی اور علامہ سخاوی  رحمہما اللہ نے اس کو ثابت شدہ قرار دیا ہے۔ اس لیے اس حدیث کو بے اصل نہیں کہہ سکتے، بلکہ فضائل میں بیان کرنے کی اجازت ہے۔ 

جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں اس حوالے سے مفتی ولی حسن خان ٹونکی رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ موجود ہے، ذیل میں سوال و جواب بعینہ نقل کیا جاتاہے:

’’سوال:

مسئلہ این کہ ہماری مسجد میں جمعہ کو ایک مقرر نے تقریر شانِ علی میں یہ حدیث بیان کی: ’’أنا مدینة العلم وعلي بابها‘‘  امام صاحب نے اس پر اعتراض کیا کہ یہ حدیث موضوع ہے، قرآن و سنت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں!

جواب:

’’أنا مدینة العلم وعلي بابها‘‘ ، ’’أنا دار الحکمة وعلي بابها‘‘ جامع ترمذی، مستدرک حاکم اور دوسری کتابوں میں موجود ہے، البتہ امام ترمذی نے اس کو منکر کہاہے۔ اس حدیث کے بارے میں محدثین کی آراء مختلف ہیں۔

بعض نے تو اس کو غریب، منکر کہا اور اس کے رواۃ پر سخت اعتراض کیا ہے، جب کہ اہلِ سنت میں سے بعض نے اس کو حسن کہاہے۔ دیکھو: ’’الموضوعات الکبیر‘‘ (ص:40) و ’’اللآلی المصنوعۃ‘‘ للسیوطی (1/172)

اس لیے بندہ راقم کے نزدیک یہ حدیث ان احادیث میں سے نہیں ہے جس کا بیان کرنا العیاذ باللہ کذب علی الرسول ہو۔ فقط واللہ اعلم

کتبہ: ولی حسن (4/9/1403)‘‘

الموضوعات الکبری، لعلي القاري، حرف الهمزة، (ص:23،24) ط: مطبع مجتبائي، دهلي:

’’حدیث: أنا مدینة العلم وعلي بابها. رواه الترمذي في جامعه، وقال: إنه منکر. وکذا قال السخاوي، وقال: إنه لیس له وجه صحیح. وقال ابن معین: إنه کذب لا أصل له. وکذا قال أبو حاتم ویحییٰ بن سعید، وأورده ابن الجوزي في الموضوعات ووافقه الذهبي وغیره علی ذلك. وقال ابن دقیق العید: هذا الحدیث لم یثبتوه. وقیل: إنه باطل. وقال الدارقطني: غیر ثابت. وسئل عنه الحافظ العسقلاني، فأجاب بأنه حسن، لاصحیح کما قال الحاکم، ولاموضوع کما قال ابن الجوزي. ذکره السیوطي. وقال الحافظ أبوسعید العلائي: الصواب أنه حسن باعتبار طرقه، لاصحیح ولاضعیف، فضلًا عن أن تکون موضوعًا علی ماذکره الزرکشي‘‘. 

جب کہ دوسری حدیث جسے سائل نے ذکر کیا ہے، علامہ عجلونی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کے تمام طرق ضعیف ہیں اور الفاظ رکیک ہیں ۔

ملاحظہ فرمائیں : "وبالجملة فکلها ضعیفة والفاظها رکیکة ، "(کشف الخفاء ومزیل الالباس ، حرف الهمزة مع النون :۱۔۲۰۴) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں