بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حج یا عمرہ پر جانے والے کے معافی مانگنے پر اس سے سخت رویہ رکھنے کا حکم


سوال

کہا جاتا ہے کہ جب کوئی عمرہ یا حج کے لیے روانہ ہو تو عزیز واقارب میں اگر کوئی ناراض ہو یا کسی سخت اختلاف کی وجہ سے بول چال بند ہو تو روانہ ہونے سے پہلے معافی تلافی کر لینی چاہیے،  ورنہ عمرہ یا حج قبول نہیں ہوتا۔ اب عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسے مواقع پر بجاۓ صلح صفائی کے بات زیادہ بڑھ جاتی ہے اور الٹا معافی مانگنے والے کے ساتھ سخت رویہ رکھا جاتا ہے اور اس کی بےعزتی تک کر دی جاتی ہے، یعنی کہ لوگوں کے پاس ایک طرح سے اس آدمی کو جو ایک نیک سفر پر جانے کی وجہ سے خاموشی اختیار کرتا ہے اور ہر سخت بات برداشت کرتا ہے کو رسوا کرنے کا آسان نسخہ ہاتھ لگ جاتا ہے۔ اس پر راہ نمائی فرمائیے!

جواب

حج و عمرہ کا سفر بڑی سعادت والا سفر ہے، اور حج یا عمرہ پر جانے والے کی دعائیں قبول ہونا بھی احادیث سے ثابت ہے اور حج یا عمرہ پر جانے والوں سے دعا کی درخواست کرنا بھی حدیث سے ثابت ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص حج یا عمرہ پر جاتے ہوئے اپنے عزیز و اقارب سے صلح صفائی کی غرض سے معافی مانگے تو عزیز و اقارب کو بھی چاہیے کہ اسے دل سے معاف کر کے اس سے دعاؤں کی درخواست کریں، ایسے موقع پر ناراضی  و ناچاقی  کی آگ کو مزید بھڑکانا بڑی محرومی کی بات ہے، اس طرح کے موقعوں کو تو غنیمت سمجھ کر آپس کی رنجشوں کو دور کرنا چاہیے اور دلوں کو بغض اور کینے سے صاف کرلینا چاہیے۔ کیا پتا حج یا عمرہ پر جانے والے کو  خوش اخلاقی سے رخصت کرنے کی وجہ سے حرمین میں اس کے دل سے دعا نکلے اور وہ قبول ہوجائے تو بڑے نفع کی بات ہے، اس کے بالمقابل اگر نفس اور شیطان کی بات مان کر بد اخلاقی کے ساتھ حج یا عمرہ پر جانے والے کے ساتھ پیش آئے تو کوئی فائدہ تو ہوگا نہیں،  مزید ایک نقصان یہ بھی ہوجائےگا کہ اس کی حرمین کی دعاؤں سے محروم ہوجائے گا اور قطع تعلقی کا گناہ الگ ملے گا۔

تاہم حج یا عمرے پر جانے والے کو بھی چاہیے کہ وہ صرف رسم پوری کرنے کے لیے معافی نہ مانگے، ایسا نہ ہوکہ مبارک سفر پر روانگی کے وقت تو معافی مانگی جائے، لیکن واپس آکر وہی روش اختیار کی جائے،  پس اگر حاجی یا عمرہ کرنے والا سچے دل سے معافی کا خواست گار ہو ، صرف رسمی کار روائی نہ کرے تو اس کے بعد اسے اس بات کی پروا نہیں کرنی چاہیے کہ کوئی دوسرا اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اسے ذلیل و رسوا کرے گا؛ اس لیے کہ سچے دل سے معافی مانگنے والا اور اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع اختیار کرنے والا کبھی ذلیل نہیں ہوتا، اسے اللہ تعالیٰ ضرور عزت دیں گے، حدیث شریف میں ہے:
« عن أبي هریرة عن رسول الله صلی الله علیه وسلم قال: مانقصت صدقة من مال، ومازاد الله عبداً بعفو إلا عزًّا، وماتواضع أحد لله إلا رفعه الله». ( الصحیح لمسلم، کتاب البر والصلة، باب استحباب العفووالتواضع، رقم الحدیث: ۲۵۸۸، ط: دارالفکر بیروت، لبنان) 

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :نبی اکرمﷺ نے فرمایا: صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی، اور معافی ودرگزر سے اللہ بندہ کی عزت ہی بڑھاتے ہیں، اور جو کوئی بھی اللہ کے لیے  جھکتا ہے اللہ پاک اس کو بلند کردیتے  ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201132

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں