بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کے لیے جمع کرائی گئی رقم پر زکاۃ کا حکم


سوال

حج 2018 کے لیے جو پیسے جمع کروائے ہیں ان پیسوں پر زکاۃ دینی ہے یا نہیں ؟ اور اگر پورے پیسے نہیں بلکہ  صرف ٪40 فیصد ادا کردیے ہوں اور ٪60 فیصد باقی ہوں  جو رمضان کے بعد دینے ہوں تو اس پر زکاۃ آئے گی؟

جواب

حج کے لیے جمع کرائی گئی رقم کی دو صورتیں ہیں:(1) حکومت کی اسکیم ہے۔ (2) پرائیویٹ اسکیم ہے۔

حکومت کی اسکیم میں جو رقم جمع کرائی جاتی ہے  اس میں سے کچھ رقم پاسپورٹ اور ٹکٹ کے ساتھ واپس ملتی ہے، اور پرائیوٹ اسکیم میں رقم واپس نہیں ملتی۔ لہذا سرکاری اسکیم میں رقم جمع کرانے اور نام آنے کے بعد  زکاۃ کا سال مکمل ہوگیا  تو روانگی سے پہلے جو رقم واپس ملے گی اس کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا،  جو رقم حج کے اخراجات کے مد میں  کٹ گئی اس کی زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔ اور پرائیوٹ اسکیم میں چوں کہ کوئی رقم واپس نہیں کرتے  تو جمع شدہ رقم پر زکاۃ بھی لازم نہیں ہوگی۔

باقی حج کی نیت سے جو رقم صرف  الگ کی  ہو ، ابھی تک  جمع نہیں کرائی اور وہ موجود ہے، یا سرکاری اسکیم میں جمع کرائی ہے اور ابھی تک قرعہ اندازی نہیں ہوئی، یاقرعہ اندازی ہوگئی اور ناکام امیدواروں میں نام آگیا تو سال گزرنے پر اس  رقم کی  زکاۃ اداکرنا لازم ہوگا، خواہ وہ رقم ابھی تک بینک سے نہ نکلوائی ہو۔ 

'' إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضاً في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول''۔ (فتاوی شامی،2/ 262، کتاب الزکاة، ط: سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200416

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں