بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کے سفر میں والد کے فوت ہونے کے بعد بیٹے کا جاکر حج کرنا


سوال

ایک آدمی حج کے لیے گیا،  وہاں جاکر مر گیا،  اب اس کابیٹا گیا اس کی جگہ پر،  اور اس نے حج کرلیا  تو یہ حج کس کا ہوگا؟

جواب

اگر بیٹے نے اپنے والد کی طرف سے حجِ  بدل کی نیت کی تھی تو مذکورہ حج اس کے والد کی طرف سے حجِ  بدل ہوگا اور اگر بیٹے کی نیت والد کی طرف سے حجِ  بدل کی نہیں تھی،  بلکہ اپنا حج کرنے کی نیت تھی تو مذکورہ حج بیٹے کا شمار ہوگا۔

اگر بیٹے نے فرض حج نہیں کیا تھا اور والد کی طرف سے حج بدل کی نیت کرلی تھی تو اگرچہ والد کی طرف سے حجِ بدل ادا ہوگیا،  لیکن اس کا ایسا کرنا جائز نہیں تھا،  اسے چاہیے تھا کہ پہلے اپنا فریضہ ادا کرلیتا اور پھر آئندہ سال والد کی طرف سے حج بدل کرتا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 603):
"وقال في الفتح أيضاً: والأفضل أن يكون قد حج عن نفسه حجة الإسلام خروجاً عن الخلاف، ثم قال: والأفضل إحجاج الحر العالم بالمناسك الذي حج عن نفسه، وذكر في البدائع كراهة إحجاج الصرورة؛ لأنه تارك فرض الحج. ثم قال في الفتح بعد ما أطال في الاستدلال: والذي يقتضيه النظر أن حج الصرورة عن غيره إن كان بعد تحقق الوجوب عليه بملك الزاد والراحلة والصحة فهو مكروه كراهة تحريم؛ لأنه يتضيق عليه في أول سني الإمكان فيأثم بتركه، وكذا لو تنفل لنفسه ومع ذلك يصح؛ لأن النهي ليس لعين الحج المفعول بل لغيره وهو الفوات؛ إذ الموت في سنة غير نادر. اهـ. قال في البحر: والحق أنها تنزيهية على الآمر؛ لقولهم: والأفضل إلخ تحريمية على الصرورة المأمور الذي اجتمعت فيه شروط الحج ولم يحج عن نفسه؛ لأنه أثم بالتأخير اهـ. قلت: وهذا لاينافي كلام الفتح؛ لأنه في المأمور، ويحمل كلام الشارح على الآمر، فيوافق ما في البحر من أن الكراهة في حقه تنزيهية وإن كانت في حق المأمور تحريميةً". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں