بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کوٹہ (quota) دوسری کمپنی کو بیچنا


سوال

میں ایک نجی کمپنی کا مالک ہوں اور میرے پاس حج کا ایک کوٹہ ہے(quota)، کیا میں دوسری کمپنی کو اپنا حج کوٹہ بیچ سکتا ہوں؟

جواب

 خرید و فروخت کے لیے کیے جانے والے سودے میں دونوں طرف "مال"  ہونا ضروری ہے اور ’’مال‘‘ کہتے ہیں  وہ چیز  جس کی طرف طبیعت مائل ہو اور اس  کی ذخیرہ اندوزی ممکن ہو،  تاکہ  ضرورت کے وقت کام آسکے۔اور اگر سودے میں ایک طرف مال ہو اور دوسری طرف صرف حق ہو، مال نہ ہو تو ایسا سودا شرعاً ناجائز ہوتا ہے۔

صورت مسئولہ میں حج پر بھیجنے کا کوٹہ شرعی اصطلاح میں یہ ایک حقِ مجرد ہے جو آپ دوسری کمپنی کو بیچنا چاہ رہے ہیں۔ اور شرعاًحقوقِ مجردہ کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے لہذا آپ کے لیے اپنا حج کا کوٹہ دوسری کمپنی کو بیچنا جائز نہیں ہے۔

البحر الرائق   میں ہے :

"(هو مبادلة المال بالمال بالتراضي) من استبدلت الثوب بغيره أو بدلت الثوب بغيره أبدله من باب قتل، كذا في المصباح. وفي المعراج ما يدل على أنها بمعنى التمليك؛ لأن بعضهم زاد على جهة التمليك، فقال فيه: لا حاجة إليه؛ لأن المبادلة تدل عليه، والمال في اللغة: ما ملكته من شيء، والجمع أموال، كذا في القاموس. وفي الكشف الكبير: المال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة".  (5 / 277،  دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے :

"اعلم أن الحق في العادة يذكر فيما هو تبع للمبيع، ولا بد له منه ولايقصد إلا لأجله كالطريق والشرب للأرض". (5 / 187، سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة ،كحق الشفعة". (4 / 518، سعید)

 


فتوی نمبر : 144107200764

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں