بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج پر جانے والوں پر اپنے وطن میں قربانی کرنے کا حکم


سوال

 میرے تمام گھر والے حج پر ہیں ، حج مکمل ہونے کے بعد وہ وہاں قربانی کریں گے تو مجھے اپنے گھر والوں کی طرف سےیہاں قربانی کرنی چاہیے یا وہ وہاں جو قربانی کریں گے اس سے قربانی کا فرض ادا ہوجائے گا؟ مجھے کسی نے بتایا ہے کہ وہاں کی قربانی شکرانے کے لیے ہوتی ہے، اس سے فرض ادا نہیں ہوتا۔ براہِ کرم آپ تفصیل بتا کر راہ نمائی فرما دیں!

جواب

حاجی پر قربانی سے متلق یہ تفصیل ہے کہ  قربانی دو طرح کی ہوتی ہے:

(1)  ایک قربانی تو وہ ہے جو صاحبِ نصاب مقیم پر واجب ہوتی ہے خواہ حج کرنے جائے یا نہ جائے، اگر حاجی صاحبِ نصاب ہے اور  قربانی کے دنوں میں مکہ مکرمہ میں مقیم ہے، یعنی منی جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن اس کا قیام ہو  یا مستقل وہیں رہتا ہے،  تو اس پر یہ قربانی واجب ہے، اور اسے اختیار ہے کہ  چاہے تو مکہ مکرمہ یا مدینہ میں  قربانی کا انتظام کرے یا اپنے وطن میں قربانی کی رقم بھیج دے یا وطن میں کسی کو قربانی کرنے کا کہہ دے، البتہ منیٰ میں قربانی کرنے کا ثواب پوری دنیا کی تمام جگہوں سے زیادہ ہے۔ اور کسی بھی جگہ ایک قربانی کرنے سے یہ فرض ادا ہوجائے گا۔

 (2)  دوسری قربانی سے مراد "دمِ شکر" ہے، حجِ قِران اور تمتع کرنے والوں  پر ایامِ نحر  (10،11،12 ذوالحجہ) میں  حلق (سرمنڈوانے) یا بال کٹوانے سے پہلے منیٰ یا حدود حرم میں یہ قربانی کرنا واجب ہے۔حجِ افراد  (صرف حج) کرنے والوں پر یہ قربانی واجب نہیں ہے۔

حاصل یہ ہوا کہ حجِ  افراد کی صورت میں مقیم اور صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں صرف  پہلی قسم کی قربانی واجب ہوگی، اور اگر مقیم نہ ہو یا استطاعت نہ ہوتو کچھ بھی واجب نہیں ہوگا ، اور قارن (حج قران کرنے والے) اور متمتع (حجِ تمتع کرنے والے) پر مقیم اور صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں دو نوں قسم کی قربانیاں لازم ہوں گی، ورنہ صرف دوسری قسم یعنی دمِ شکر لازم ہوگی۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے اگر آپ کے گھر والوں پر حج کی قربانی (دم شکر)کے علاوہ بھی قربانی لازم ہورہی ہے یعنی وہ صاحب استطاعت بھی ہیں اور وہاں مقیم بھی ہیں ( یعنی آٹھ ذی الحجہ کو منیٰ جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ان کا قیام ہوگا) اور وہ وہاں قربانی کرنے کے بجائے آپ کو یہاں قربانی کرنے کا کہہ رہے ہیں تو اگر آپ ان کی طرف سے یہیں قربانی کردیں تو ان کا واجب ادا ہوجائے گا، اور اگر وہ خود اپنی واجب قربانی وہیں سعودیہ میں کرلیں تو آپ کو ان کے لیے دوبارہ یہاں قربانی کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201790

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں