بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حجِ افراد کرنے والے پر عید الاضحیٰ والی قربانی واجب ہوگی یا نہیں؟


سوال

اس سال میں حجِ افراد کر رہا ہوں،  اگر چہ میرے اوپر حج کی قربانی واجب نہیں، لیکن میں اور میری بیوی صاحب نصاب ہیں، حج میں رہتے ہوۓ کیا ہمارے اوپر عید کی قربانی واجب ہے؟

جواب

حاجی کے لیے عید والی قربانی واجب ہونے یا نہ ہونے کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر حاجی شرعی مسافر ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوتی، البتہ اگر مسافر حاجی بھی اپنی خوشی سے عید والی قربانی کرے گا تو اس پر ثواب ملے گا، لیکن لازم نہیں ہے، اسی طرح اگر حاجی مقیم ہو لیکن صاحب نصاب نہ ہو تو بھی اس پر عید الاضحیٰ والی قربانی واجب نہیں ہوگی۔

اور اگر حاجی مقیم ہو (یعنی آٹھ ذوالحجہ کو منٰی روانہ ہونے سے پہلے پہلے مکہ مکرمہ میں اس کا پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام ہو) اور اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ نصاب کے برابر زائد رقم بھی موجود ہو تو اس پر عید الاضحیٰ والی قربانی کرنا واجب ہوگی۔

بصورتِ مسئولہ اگر آٹھ ذوالحجہ کو منٰی روانہ ہونے سے پہلے  مکہ مکرمہ میں آپ اور آپ کی بیوی  کی اقامت کے پندرہ دن یا اس سے زیادہ ہو رہے ہوں تو آپ عید کے دنوں میں مقیم شمار ہوں گے اور صاحبِ نصاب  ہونے کی صورت میں آپ پر  عید الاضحیٰ کی  قربانی بھی واجب ہوگی۔ لیکن اگر  منیٰ روانہ ہونے سے پہلے مکہ میں پندرہ دن پورے نہ ہورہے ہوں تو اقامت کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا، لہٰذا آپ شرعاً مقیم نہیں بلکہ مسافر   کہلائیں گے  ، اور  اس  صورت میں آپ پر عید الاضحیٰ والی قربانی واجب نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ حج قران یا حج تمتع کرنے کی صورت میں دمِ شکر (شکرانے)کے طور پر ایک حصہ قربانی کرنا یا ایک دنبہ، یا بھیڑ، یا بکری حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہوتا ہے، حجِ افراد  (صرف حج) کرنے والوں پر یہ قربانی واجب نہیں ہوتی۔ یہ (دمِ شکر )  اس قربانی کے علاوہ ہے جو ہر سال اپنے وطن میں کی جاتی ہے، دونوں الگ الگ ہیں،عید والی قربانی کا حج والی  قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 174)

" قال أصحابنا: إنه دم نسك وجب شكراً؛ لما وفق للجمع بين النسكين بسفر واحد".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 63)

"ومنها: الإقامة فلا تجب على المسافر؛ لأنها لا تتأدى بكل مال ولا في كل زمان بل بحيوان مخصوص في وقت مخصوص، والمسافر لا يظفر به في كل مكان في وقت الأضحية، فلو أوجبنا عليه لاحتاج إلى حمله مع نفسه، وفيه من الحرج ما لا يخفى أو احتاج إلى ترك السفر، وفيه ضرر، فدعت الضرورة إلى امتناع الوجوب، بخلاف الزكاة؛ لأن الزكاة لا يتعلق وجوبها بوقت مخصوص بل جميع العمر وقتها، فكان جميع الأوقات وقتاً لأدائها، فإن لم يكن في يده شيء للحال يؤديها إذا وصل إلى المال، وكذا تتأدى بكل مال، فإيجابها عليه لا يوقعه في الحرج، وكذلك صدقة الفطر؛ لأنها تجب وجوباً موسعاً كالزكاة، وهو الصحيح.

وعند بعضهم وإن كانت تتوقف بيوم الفطر لكنها تتأدى بكل مال، فلا يكون في الوجوب عليه حرج، وذكر في الأصل وقال: ولا تجب الأضحية على الحاج؛ وأراد بالحاج المسافر، فأما أهل مكة فتجب عليهم الأضحية وإن حجوا".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 125)

"(فيقصر إن نوى) الإقامة (في أقل منه) أي في نصف شهر (أو) نوى (فيه  لكن في غير صالح) أو كنحو جزيرة أو نوى فيه لكن (بموضعين مستقلين كمكة ومنى) فلو دخل الحاج مكة أيام العشر لم تصح نيته؛ لأنه يخرج إلى منى وعرفة فصار كنية الإقامة في غير موضعها وبعد عوده من منى تصح، كما لو نوى مبيته بأحدهما أو كان أحدهما تبعاً للآخر بحيث تجب الجمعة على ساكنه؛ للاتحاد حكماً".

الفتاوى الهندية (1/ 139)

"ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوماً أو أكثر.كذا في الهداية ... ونية الإقامة إنما تؤثر بخمس شرائط: ترك السير حتى لو نوى الإقامة وهو يسير لم يصح. وصلاحية الموضع حتى لو نوى الإقامة في بر أو بحر أو جزيرة لم يصح. واتحاد الموضع والمدة. والاستقلال بالرأي. هكذا في معراج الدراية ... وإن نوى الإقامة أقل من خمسة عشر يوماً قصر. هكذا في الهداية". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201757

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں