بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ کفر میں کی گئی وصیت کا حکم


سوال

ایک 95 سال کی سابقہ آغاخانی خاتون نے اپنے انتقال سے 6 سال قبل اسلام قبول کرلیا تھا،  لیکن وہ 3 سال قبل ہی وصیت کر چکی تھی کہ ان کا گھر پوتے کے لیے اور زیورات بہو کے لیے ہوں گے۔ کیا تین سال قبل کی گئی وصیت پر بھی اسلام لانے کے بعد ویسے ہی عمل کیا جائےگا جیسا کہ وصیت کی گئی تھی؟ شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ وصیت کرنے کے لیے مسلمان ہونا شرط نہیں ہے،  لہذا حالتِ کفر کی وصیت اسلام لانے کے بعد بھی معتبر ہوگی۔ زیرِ  نظر مسئلے میں اگر مذکورہ خاتون کے شرعی ورثاء میں وہ پوتا نہیں ہے، جس کے لیے گھر کی وصیت کی گئی تھی تو مرحومہ کے ایک تہائی ترکہ میں اگر گھر اور زیورات  ہوں تو مرحومہ کی وصیت کے مطابق گھر پوتے کو اور زیورات بہو کو دے دیے جائیں گے اور اگر گھر اور زیورات کی قیمت ایک تہائی ترکہ سے زیادہ ہو تو اس پوری وصیت پر عمل کرنا دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگا اور اگر دیگر ورثاء اجازت نہ دیں تو  ایک تہائی ترکہ کی آدھی قیمت کے بقدر زیورات بہو کو دیے جائیں گے اور آدھی قیمت کے بقدر گھر میں پوتے کی ملکیت ثابت ہوگی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7 / 335):
"وأما إسلام الموصي فليس بشرط لصحة وصيته، فتصح وصية الذمي بالمال للمسلم والذمي في الجملة؛ لأن الكفر لاينافي أهلية التمليك، ألا ترى: أنه يصح بيع الكافر، وهبته فكذا وصيته".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 667):

"(وإن أوصى لأحدهما بجميع ماله ولآخر بثلث ماله ولم تجز) الورثة ذلك (فثلثه بينهما نصفان) لأن الوصية بأكثر من الثلث إذا لم تجز تقع باطلة فيجعل كأنه أوصى لكل بالثلث فينصف.
(قوله: تقع باطلة) ليس المراد بطلانها من أصلها وإلا لما استحق شيئا وإنما المراد بطلان الزائد بيان ذلك أن الموصي قصد شيئين الاستحقاق على الورثة فيما زاد على الثلث وتفضيل بعض أهل الوصايا على بعض. والثاني يثبت في ضمن الأول، ولما بطل الأول لحق الورثة وعدم إجازتهم بطل ما في ضمنه وهو التفضيل، فصار كأنه أوصى لكل منهما بالثلث فينصف الثلث بينهما كما لو أوصى لكل منهما به حقيقة اهـ من العناية موضحاً".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201537

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں