بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت حیض میں بیوی سے ہم بستری اور اس سے ٹھہرنے والے حمل کا حکم


سوال

 حالتِ  حیض میں شوہر نے بیوی سے جماع کر لیاتو کیا حکم ہے؟  اور اگر حمل رہ گیا تو کیا وہ بچہ حرام ہے ?

جواب

حالتِ حیض میں جماع کرنا حرام و ناجائز ہے، اگر زوجین کی رضامندی سے اس گناہ کا ارتکاب ہوا ہے تو دونوں گناہ گار ہوئے، دونوں پر استغفار کرنا لازم ہے، حیض میں ہم بستری شرعی نقطہ نظر سے حرام ہونے کے ساتھ ساتھ  طبی لحاظ سے بھی انتہائی نقصان دہ ہے، اس لیے اس سے بالکل اجتناب کرنا ضروری ہے، باقی اس بات سے قطع نظر کہ حالتِ حیض میں حمل ٹھہرتا ہے یا نہیں ہے، نکاح کے چھ ماہ ہونے کے بعد والے بچے کا نسب منکوحہ کے شوہر سے ثابت ہوتا ہے؛  لہذا یہ عمل اگرچہ ناجائز ہے،  لیکن بچہ کا  نسب  باپ  سے ثابت ہوگا ۔

 بہتر یہ ہے کہ اس کے بعد کچھ صدقہ کرے؛ تاکہ نیکی سے گناہ دھل جائے۔ استطاعت ہو تو ایک دینار (4.374  گرام سونے کا سکہ) یا آدھا دینار (یا اس کی قیمت) صدقہ کریں۔  

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 298):
"(قوله: ويندب إلخ) لما رواه أحمد وأبو داود والترمذي والنسائي عن ابن عباس مرفوعاً «في الذي يأتي امرأته وهي حائض، قال: يتصدق بدينار أو نصف دينار»، ثم قيل: إن كان الوطء في أول الحيض فبدينار أو آخره فبنصفه، وقيل: بدينار لو الدم أسود وبنصفه لو أصفر. قال في البحر: ويدل له ما رواه أبو داود والحاكم وصححه: «إذا واقع الرجل أهله وهي حائض، إن كان دماً أحمر فليتصدق بدينار، وإن كان أصفر فليتصدق بنصف دينار»".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں