بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حافظ قرآن کی فضیلت پر ایک روایت کی تحقیق


سوال

ایک روایت کے بارے میں تحقیق مطلوب ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : ’’جنت میں ایک نہر ہے جس کا نام "ریان" ہے، اس پر ایک شہر "مرجان" سے تعمیر کیا گیا ہے، جس کے ستر ہزار سونے اور چاندی کے دروازے ہیں اور یہ حافظ قرآن کے لیےہے۔‘‘

اس روایت کے بارے میں دوباتیں مطلوب ہیں:

۱)  اس کے اسنادی حیثیت واضح فرمایئے کہ یہ کس درجے کی روایت ہے؟

۲)  اور دوسری بات یہ کہ فضائل کے باب میں اس روایت کا بیان کرنا درست ہے کہ نہیں؟

جواب

 مذکورہ بالا حدیث علامہ متقی ہندیؒ نے ’’کنز العمال‘‘ میں’’تاریخِ دمشق لابن عساکر‘‘ کے حوالے سے نقل کی ہے، اور اس کی سند کے متعلق فرمایا ہے: اس میں ایک راوی کثیر بن حکیم ہے، جو کہ متروک ہے۔

ابن عساکرؒ نے ’’تاریخ دمشق‘‘ میں اس روایت کو ذکر فرمایا ہے، اور ان کی سند میں راوی کثیر بن حکیم نہیں، بلکہ کثیر بن سلیم ہیں، بظاہر کنز العمال کے مصنف سے تسامح ہوا ہے۔

اس راوی کے متعلق محدثین، علماء جرح وتعدیل کے اقوال درج ذیل ہیں:

یحیی بن معینؒ(متوفی 233 ھ): ضعیف (یعنی کم زور ہے)۔

امام بخاریؒ(متوفی 256 ھ): کثیر ابو ہشام،  ان کی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کردہ  روایت منکر ( یعنی انتہائی کم زور) ہے۔

ابوزرعہ رازیؒ (متوفی264 ھ): واہی الحدیث (یعنی حدیث روایت کرنے میں شدید ضعیف ہے)۔

ابو حاتمؒ(متوفی 277 ھ): ضعیف اور منکر (یعنی انتہائی کم زور)، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بے اصل روایات نقل کرتے ہیں۔

امام نسائیؒ(متوفی 303 ھ): متروک الحدیث (ان کی حدیث نہیں لی گئی)۔

محدثین اور جرح وتعدیل کے علماء اور فن رجال کے ماہرین کے مذکورہ بالا اقوال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس روایت کے راوی کثیر بن سلیم شدید ضعیف ہیں۔

نیز محدثین کے نزدیک ’’متروک‘‘ راوی کی روایت ناقابلِ اعتبار ہے۔

چنانچہ ایسی صورت میں اگر اس روایت کا مضمون کسی دوسری معتبر روایت سے ثابت ہوتا ہو تو اس معتبر روایت کی بنیاد پر وہ مضمون قابلِ اعتبار ہوتا، اور اگر وہ مضمون کسی دوسری روایت سے ثابت نہیں ہوتا تو وہ مضمون قابلِ اعتبار اور قابلِ بیان نہیں ہوتا۔

چوں کہ مذکورہ بالا روایت کے راوی کثیر  بن سلیم کے متعلق صرف متروک ہی نہیں، بلکہ متعدد محدثین سے اور بھی شدید کلمات نقل کیے گئے ہیں، لہذا اگر اس روایت کو کثیر بن سلیم کے علاوہ کسی اور نے نقل نہیں کیا ہو تو اس کو فضائل کے باب میں بیان کرنا بھی درست نہ ہوگا۔

"کنز العمال" میں ہے:

في الجنة نهر يقال له: "الريان"، عليه مدينة من مرجان، لها سبعون ألف باب من ذهب وفضة لحامل القرآن». (كر عن أنس) وفيه كثير بن حكيم متروك". (رقم: 2463، 1 /550، ط: مؤسسة الرسالة)

تاریخ دمشقمیں ہے:

"أنبأنا أبو الحسن علي بن المسلم ثنا عبد العزيز بن أحمد أنبأنا تمام بن محمد أنبأنا أبو يعقوب الأذرعي حدثنا أبو بكر محمد بن عثمان الأذرعي حدثنا أبو عبيد محمد بن حسان الأذرعي ثنا محمد بن خالد ثنا كثير بن سليم ( قال: سمعت أنس بن مالك يقول: قال رسول الله صلى ارلله عليه وسلم: «في الجنة نهر يقال له: "الريان"، عليه مدينة من مرجان، لها سبعون ألف باب من ذهب وفضة لحامل القرآن»". (تاريخ دمشق لابن عساكر: رقم: 11447، 54 /199، ط: دار الفكر)

ابن أبي حاتم ؒفرماتے ہیں:

"كثير بن سليم: أبو سلمة المدائني روى عن أنس بن مالك والضحاك بن مزاحم، روى عنه أحمد بن عبد الله بن يونس، وإسماعيل بن أبان الوراق وعمرو بن عون وأبو صالح كاتب الليث ومحمد بن عبد الملك بن أبي الشوارب، سمعت أبي يقول ذلك.

نا عبد الرحمن قال: قرئ على العباس بن محمد الدوري عن يحيى بن معين أنه قال: كثير بن سليم ضعيف، نا عبد الرحمن قال: سألت أبا زرعة عن كثير بن سليم، فقال: واهي الحديث.

نا عبد الرحمن قال سألت أبي عن كثير بن سليم فقال: ضعيف الحديث منكر الحديث، لايروي عن أنس حديثاً له أصل من رواية غيره. (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: رقم: 846، 7/152، ط: دار إحياء التراث العربي)

ابن أبي عدي ؒفرماتے ہیں:

"كثير بن سليم، يكنى أبا هشام. حدثنا محمد بن أحمد بن حماد، قال: حدثنا عباس، عن يحيى قال: كثير بن سليم ضعيف. سمعت ابن حماد يقول: قال البخاري: كثير أبو هشام أراه بن سليم، عن أنس منكر الحديث. وقال النسائي: كثير بن سليم متروك الحديث. وقال أحمد بن يونس: كثير أبو سلمة، شيخ لقيته بالمدائن فلا أداري يعني كثير بن سليم هذا أو غيره". (الكامل في ضعفاء الرجال: رقم: 1600، 7/198، ط: الكتب العلمية)

تاریخ بغدادمیں ہے:

"أخبرنا العتيقي، أخبرنا محمد بن عدي البصري- في كتابه- أخبرنا أبو عبيد مُحمَّد بن علي قَالَ: قلت لأبي داود: كثير بن سليم؟ فقال: ضعيف". (الكامل في ضعفاء الرجال: رقم: 1600، 7/198، ط: الكتب العلمية)

علامه نووي ؒفرماتے ہیں:

"وإذا قالوا: متروك الحديث، أو واهيه، أو كذاب، فهو ساقط لايكتب حديثه".

علامه سیوطي ؒاس کی شرح میں فرماتے ہیں:

"ولايعتبر به، ولايستشهد ..." الخ (تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ، 1 / 404-409، ط: دار طيبة) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200468

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں