بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حائضہ عورت کا قبرستان جانا


سوال

کیا حائضہ عورت قبرستان جا سکتی ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں!

جواب

عمومی طور پر عورتوں کے قبرستان  جانے سے متعلق حکم یہ ہے کہ عورتوں کے وہاں جانے سے اگر غم تازہ ہوتا  ہو اور  بلند آواز سے روتی ہوں تو ان کے لیے  قبرستان جانا  گناہ ہے؛ کیوں کہ حدیث میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے ، نیز  عورتوں میں چوں کہ صبر کم ہوتا ہے، اس لیے گھر ہی سے ایصال ثواب کرنا چاہیے۔

ہاں! اگر کوئی بوڑھی عورت عبرت اور تذکرہ آخرت کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ جزع فزع نہ کرے۔  اور جوان عورت کے لیے تذکرہ موت و آخرت کی نیت سے جانے میں بھی کراہت ہے۔

باقی حائضہ عورت کا قبرستان جانے سے متعلق حکم کوئی مختلف نہیں ہے، جو حکم عام عورت کا ہے وہی حکم حائضہ کا ہے، اس میں کوئی فرق نہیں۔

حائضہ اور غیر حائضہ کا فرق مسجد جانے سے متعلق ہے کہ حائضہ مسجد میں داخل نہیں ہو سکتی، جب کہ غیر حائضہ مسجد میں داخل ہو سکتی ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210):
"(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلاتجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200645

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں