بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ کے متعلق شرعی حکم


سوال

جی پی فنڈ کے متعلق شرعی حکم بتائیں!

جواب

واضح رہے بعض اداروں میں کٹوتی کا ملازم کو اختیار ہوتا ہے کہ اگر وہ نہ چاہے تو  جی پی کی مد میں کٹوتی ہی نہیں ہوگی، اس طرح کے اختیار کی صورت میں اصل رقم جو محکمہ تنخواہ سے وضع کرتا ہے اس کا لینا جائز ہے اورجو اضافی رقم ادارہ اپنی طرف سے اس میں شامل کرتاہے اس کا لیناجائزہے۔ البتہ ان دونوں رقموں کے اوپر جو اضافی رقم ہوتی ہے، اسے لینا جائز نہیں ہوگا۔

اور جن محکموں میں بہرصورت جی پی کی مد میں کٹوتی ہوتی ہے ان میں اصل اور اضا فہ دونوں کا لینا جائز اور حلال ہے؛  کیوں کہ محکمہ کے اس کو سود کہنے سے وہ رقم سود نہیں ہوجاتی جب تک کہ اس میں سود کی حقیقت نہ ہو۔ اور تحقیق یہی ہے کہ وہ رقم سود نہیں ہوتی ۔

اگر مکمل تفصیل درکار ہو تو مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ پراویڈنٹ فنڈ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200892

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں