بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جیسی رعایا ویسے حکم ران


سوال

میرے ایک دوست نے فیس بُک پر پوسٹ کی ہے کہ ’’جیسے حکم ران ویسی رعا یا‘‘۔  میں نے اُس کو یہ حدیث بھیجی ہے:

’’وعن أبي الدرداء قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "إن الله تعالى يقول: أنا الله لا إله إلا أنا مالك الملوك وملك الملوك، قلوب الملوك في يدي، وإن العباد إذا أطاعوني حولت قلوب ملوكهم عليهم بالرحمة والرأفة، وإن العباد إذا عصوني حولت قلوبهم بالسخطة والنقمة، فساموهم سوء العذاب فلاتشغلوا أنفسكم بالدعاء على الملوك، ولكن اشغلوا أنفسكم بالذكر والتضرع كي أكفيكم ملوككم". رواه أبو نعيم في " الحلية ". (مشكاة المصابيح)

اس نے مجھے جواب دیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔  برائے مہربانی آپ اس بارے میں راہ نمائی فرمائیں!

جواب

1- مذکورہ بالا مسئلہ ’’جیسے اعمال ہوں گے ویسے ہی حکم ران ہوں گے‘‘ ، اصولِ شریعت سے ثابت ہے، قرآن وحدیث اور اس سے ماخوذ تعلیمات پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حکم ران اَعمال کے اعتبار سے لائے جاتے ہیں، جس طرح کا عمومی ماحول اور معاشرہ ہوگا، اسی طرح کے حکم ران ہوں گے، بلکہ قرآنی آیت کے مطابق زمین کا فساد انسان کے اپنے اعمال کی بنیاد پر ہے۔ 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {ظَهر الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَهم  بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهم یَرْجِعُوْنَ} [الروم:۴۱]

ترجمہ: ”خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھادے؛تاکہ وہ باز آجائیں“۔

 ایک اور جگہ ارشاد ہے :  {وَمَآ أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ}  [الشوریٰ:۳۰]

ترجمہ:”اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اللہ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے“۔

ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ مصیبت اور فساد کا سبب خود انسان کے اپنے کیے ہوئے بُرے اعمال ہیں، اور یہ بھی بوضاحت سمجھ میں آرہاہے کہ اگر بُرے اعمال نہ ہوں تو یہ مصائب، آفات اورفسادات وغیرہ بھی نہ ہوں گے۔  نتیجہ یہی نکلا کہ” نافرمانی سببِ پریشانی اور فرماں برداری سببِ سکون ہے“۔

2-   "وعن أبي الدرداء قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: " إن الله تعالى يقول: أنا الله لا إله إلا أنا مالك الملوك وملك الملوك، قلوب الملوك في يدي، وإن العباد إذا أطاعوني حولت قلوب ملوكهم عليهم بالرحمة والرأفة، وإن العباد إذا عصوني حولت قلوبهم بالسخطة والنقمة، فساموهم سوء العذاب فلا تشغلوا أنفسكم بالدعاء على الملوك، ولكن اشغلوا أنفسكم بالذكر والتضرع كي أكفيكم ملوككم". رواه أبو نعيم في "الحلية". (مشكاة المصابيح)
ترجمہ :  حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ (حدیثِ قدسی ) میں ارشاد فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ (یعنی میرے قبضہ قدرت ) میں ہیں؛ لہٰذا جب میرے (اکثر ) بندے میری اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے حق میں (ظالم ) بادشاہوں کے دلوں کو رحمت وشفقت کی طرف پھیر دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حق  میں (عادل ونرم خو) بادشاہوں کے دلوں کو غضب ناکی اور سخت گیری کی طرف پھیر دیتا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ (بادشاہ ) ان کو سخت عقوبتوں میں مبتلا کرتے ہیں، اس لیے (ایسی صورت میں ) تم اپنے آپ کو ان بادشاہوں کے لیے بدعا کرنے میں مشغول نہ کرو، بلکہ (میری بارگاہ میں تضرع وزاری کر کے اپنے آپ کو (میرے ) ذکر میں مشغول کرو، تاکہ میں تمہارے ان بادشاہوں کے شر سے تمہیں بچاؤں ۔‘‘ اس روایت کو ابونعیم نے اپنی کتاب ’’حلیۃ الاولیاء‘‘ میں نقل کیا ہے‘‘۔ 

 3۔۔  حضرت حسن بصری رح سے منقول ہے : "أعمالكم عمالكم، وكما تكونوا يولى عليكم".   یعنی تمہارے حکم راں تمہارے اعمال کا عکس ہیں۔  اگر تمہارے اعمال درست ہوں گے تو تمہارے حکم راں بھی درست ہوں گے ، اگر تمہارے اعمال خراب ہوں گے تو تمہارے حکام بھی خراب ہوں گے ۔

4۔۔  منصور ابن الاسود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام اعمش رحمہ سے اس آیت   ﴿وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظّٰلِمِينَ بَعْضاً﴾کے بارے میں پوچھا کہ آپ نے اس آیت کے بارے میں  کیا سنا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے اس بارے میں سنا کہ : ’’جب لوگ خراب ہوجائیں گے تو ان پر بدترین حکم ران مسلط ہوجائیں گے‘‘۔

5۔۔ امام بیہقی رحمہ اللہ   نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ سے ایک روایت نقل  کی ہے: اللہ تعالیٰ ہر زمانہ کا بادشاہ اس زمانہ والوں کے دلوں کے حالات کے مطابق بھیجتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے  کہ رعایا کے  ساتھ  حکم رانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال وکردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا  اللہ کی اطاعت و فرمان برداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات بالعموم راست بازی ونیک کرداری کے پابند ہوتے ہیں تو ان کا ظالم حکم ران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا اللہ کی سرکشی وطغیانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات عام طور پر بد کرداری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکم ران بھی ان کے حق میں غضب ناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے؛ لہٰذا حکم ران کے  ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وانصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیے بدعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، ایسے حالات میں اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے، اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی وزاری کے ساتھ التجا و  فریاد کی جائے اور اپنے اعمال و اپنے معاملات کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع کر دیا جائے؛ تاکہ رحمتِ الٰہی متوجہ ہو اور ظالم حکم ران کے دل کو عدل وانصاف اور نرمی وشفقت کی طرف پھیر دے‘‘۔
كشف الخفاء ت هنداوي (2/ 149):
"كما تكونوا يولى عليكم، أو يؤمر عليكم. قال في الأصل: رواه الحاكم، ومن طريقه الديلمي عن أبي بكرة مرفوعًا، وأخرجه البيهقي بلفظ "يؤمر عليكم" بدون شك، وبحذف أبي بكرة؛ فهو منقطع. وأخرجه ابن جميع في معجمه، والقضاعي عن أبي بكرة بلفظ: "يولى عليكم" بدون شك، وفي سنده مجاهيل. ورواه الطبراني بمعناه عن الحسن: "أنه سمع رجلًا يدعو على الحجاج؛ فقال له: لاتفعل إنكم من أنفسكم أتيتم، إنا نخاف إن عزل الحجاج أو مات أن يتولى عليكم القردة والخنازير؛ فقد روي أن أعمالكم عمالكم، وكما تكونوا يولى عليكم".

وفي فتاوى ابن حجر: وقال النجم: روى ابن أبي شيبة عن منصور بن أبي الأسود قال: "سألت الأعمش عن قوله تعالى ﴿وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظّٰلِمِينَ بَعْضاً﴾  ما سمعتهم يقولون فيه؟ قال: سمعتهم: إذا فسد الناس أمر عليهم شرارهم". وروى البيهقي عن كعب قال: "إن لكل زمان ملكًا يبعثه الله على نحو قلوب أهله؛ فإذا أراد صلاحهم؛ بعث عليهم مصلحًا، وإذا أراد هلاكهم؛ بعث عليهم مترفيهم". 

جہاں تک حدیث کے الفاظ کا تعلق ہے تو اسےامام طبرانی اور ابو نعیم اصبہانی نے نقل کیا ہے، امام طبرانی  کی سند میں "وھب بن راشد"نامی راوی پر کلام ہے ، اور امام طبرانی نے یہ روایت "المعجم الأوسط" اور  "المعجم الکبیر"  دونوں میں ذکر کی ہے، علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایتِ طبرانی کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: ’’یہ روایت طبرانی نے نقل کی ہے اور اس میں وہب بن راشد راوی متروک ہیں،جب کہ ابو نعیم کی یہ روایت جو ’’حلیہ‘‘  میں نقل کی گئی ہے،  اس میں ’’وہب بن راشد‘‘  راوی موجود نہیں،  باقی رواۃ پر بھی اس طرح کا کلام موجود نہیں ہے، اور روایت اصولِ شرع کے موافق ہے؛ اس لیے یہ حدیث قابلِ قبول ہے ، اسے حدیث کہہ کر بیان کیا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں