پٹھان لوگوں میں رواج ہے کہ صلح میں مجرم لوگ اپنے ساتھ بھیڑوغیرہ لاتے ہیں اورجانب مقابل لوگوں کودیتے ہیں اوروہ اس کوذبح کرکے کھاتےہیں، لیکن کبھی ایساہوتاہےکہ وہ اس بھیڑکونہیں لیتے ہیں تومجرم لوگ ان کوکہتےہیں کہ اگرآپ نہیں کھاتے ہیں توصرف ذبح کرلوپھرصدقہ کرلو ۔اگرصدقہ بھی نہیں کرتے ہوتوپھرمجھ کوواپس دیدوں۔اب امرمطلوب یہ ہے کہ شریعت مطہرہ میں ان صورتوں کاکیاحکم ہے ؟ اوراگر ان باتوں میں سے ایک بات نہ ہو توپھرصلح میں بھیڑ یا اورکوئی جانور لیجاناکیساہے؟
1۔فریقین کے درمیان صلح صفائی اورجھگڑے کے ختم ہونے کی صورت میں اگرکوئی شکرانے کے طورپراپنی رضاوخوشی سے بغیرکسی جبرواکراہ کے جانورذبح کرتاہے تویہ صورت جائزہے۔اور
2۔ اگراس کورواج بنالیاجائے اوراس طرح لازم کردیاجائے کہ فریق مخالف کے افرادپرچاہے وہ امیرہوں یاغریب ہرحال میں جانوروں کاذبح کرناضرروی ہو،یا
3۔اس ذبح کومالی جرمانہ کے طورپربطور سزاواجب قراردیاجاتاہو،تو ایسی صورتوں میں ذبح جائز لیکن ایسا رواج ناجائز ہوگا کیونکہ کسی مسلمان کا مال بغیر اس کی دلی رضامندی کے جائز نہیں
۴۔اوراگر ذبح کسی کے نام پر ہو یا اس کی خوشنودی کے لیے ہوتویہ ذبح لغیراللہ ا،اس صورت میں ذبح ہی ناجائز اور جانور مردار کے حکم میں ہوگا۔لہذا لہذا پہلی صورت کے علاوہ بقیہ صورتوں میں ان جانوروں کاذبح کرنااورکھاناجائزنہ ہوگا۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143707200027
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن