بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹی قسم کھانا ناجائز ہے


سوال

۔۔۔ ولد ۔۔۔  نے اپنے دو بھتیجوں  ۔۔۔ اور  ۔۔۔ کے سامنے قرآنِ پاک پر ہاتھ  رکھ  کر قسم اٹھائی کہ مجھ پر جو الزامات ہیں وہ جھوٹ ہے، اگر میں جھوٹ بولوں تو اللہ پاک مجھے اندھا کر دے ۔ جن باتوں پر قسم اٹھائی وہ الزامات سعودی عرب کے تھے، جب  ۔۔۔ نے قرآنِ  پاک پر قسم اٹھائی تو ہم نے مان لی اس کی بات۔ اس بات کے گواہان  میرا بھائی ۔۔۔ کے دو بھتیجے اور میری بہن اور میری ماں ہے۔

اب قسم اٹھانے کے بعد  ۔۔۔ کا دوست سعودی عرب سے پاکستان آیا۔ سب واقعات ساجد کے دوست کے سامنے کے تھے، اب ساجد کے دوست کا  کہنا ہے کہ ساجد نے جھوٹی قسمیں  کھائی ہیں۔ میں  قرآنِ پاک پر حلفیہ آپ کو بتا سکتا ہو ں کہ ساجد نے جھو ٹی قسمیں کھائی ہیں۔  آپ صاحبان سے گزارش ہے اس مسئلے پر فتوی  جاری کریں۔

جواب

جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سے شدید ترین گناہ ہے، جھوٹی قسم کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ رب العزت والقدرۃ کا نام استعمال کرکے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر جھوٹ کہتاہے، اگر مذکورہ شخص نے واقعۃً جھوٹی قسم کھائی ہے تو وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا، اسے چاہیے کہ سچی توبہ کرے، اور توبہ کی تکمیل یہ ہے کہ اس قسم کے نتیجے میں اگر کسی کا نقصان ہوا ہے تو اس کی تلافی کرے، البتہ جھوٹی قسم کی صورت میں کفارہ نہیں ہے، تاہم اللہ کی رضا کے لیے کچھ صدقہ دے سکتاہے۔

سوال میں بیان کردہ تفصیل کی روشنی میں مذکورہ شخص کا جھوٹا ہونا یقینی طور پر متعین نہیں ہے، جیسے اس شخص پر قسم اٹھانے کے باوجود جھوٹے ہونے کا گمان ہے، اسی طرح دوسرے شخص کے حوالے سے بھی خیال کیا جاسکتاہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ اگر مذکورہ قسم کے نتیجے میں کسی شخص کا نقصان نہیں ہوا، اور معاملہ کسی اختلافی معاملے یا جھگڑے کا نہیں ہے تو اس معاملے کو ختم کیا جائے اور حقیقتِ حال اللہ کے حوالے کی جائے۔

البتہ اگر اس قسم کے نتیجے میں کسی کی حق تلفی ہورہی ہو، یا کوئی اور اہم معاملہ اس سے متعلق ہو تو پھر اس کا حل یہ ہے کہ کسی دین دار تجربہ کار شخص کے سامنے دونوں فریق حاضر ہوکر فیصلہ کروالیں، ایسے معاملات میں دونوں طرف سے قسمیں نہیں لی جاتیں، بلکہ مدعی سے گواہ طلب کیے جاتے ہیں، اگر گواہ موجود ہوں تو جرح کے بعد ان کی گواہی پر فیصلہ ہوتاہے، اور اگر شرعی گواہ موجود نہ ہوں تو مدعیٰ علیہ سے قسم لی جاتی ہے، اور اس پر فیصلہ کردیا جاتاہے۔

صحيح البخاري (8/ 137):
"حدثنا فراس، قال: سمعت الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201322

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں