بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جنازہ کی نماز میں تین صفیں بنانا


سوال

کیا نماز جنازہ میں دو صف بنا سکتے ہیں, ایک یا تین یا پانچ صف بنانے کا اہتمام ہے، اس کا کیا حکم ہے?

جواب

جنازہ کی نماز میں جتنے زیادہ افراد ہوں اتنا ہی بہتر ہے، کیوں کہ یہ میت کے لیےدعا ہے اور چند مسلمانوں کا جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کے دربار میں کسی چیز کے لیے دعا کرنا رحمت کے نزول  اور قبولیتِ دعا کے لیے عجیب خاصیت رکھتا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جس میت مسلمان پر ایک بڑی جماعت نماز پڑھے جن کی تعداد سو تک پہنچ جائے اور وہ سب اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس میت کے لیے سفارش کریں یعنی مغفرت اور رحمت کی دعا کریں  تو ان کی دعا اور سفارش ضرور قبول ہوگی“۔ (صحیح مسلم)

اور بہتر ہے کہ امام کے پیچھے کم از کم تین صفیں بنا ئی جائیں، اگر نمازِ جنازہ میں حاضرین کم ہوں تب بھی کم از کم تین صفیں بنانا مستحب ہے، یہاں تک کہ اگر صرف سات افراد ہوں تو ایک آدمی کو ان میں سے امام بنادیا جائے اور پہلی صف میں تین آدمی کھڑے ہوں اور دوسری صف میں دو آدمی اور تیسری صف میں ایک آدمی کھڑا ہو، اس کے مستحب ہونے  کی  وجہ یہ ہے کہ  صحیح حدیث میں نبی کریم ﷺ سے منقول ہے کہ جس میت پر تین صفیں نماز پڑھ لیں وہ بخشش دیا جاتا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا : کسی بھی مسلمان پر تین صفیں مسلمانوں کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھتیں؛ مگر اللہ اس کے لیے (جنت ) واجب کردیتا ہے ۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’ مگر اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتے ہیں‘‘۔

مالک بن ہبیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ دستور تھا کہ جب وہ جنازہ کی نماز پڑھنے والوں کی تعداد کم محسوس کرتے تو اسی حدیث کی وجہ سے ان لوگوں کو تین صفوں میں  تقسیم کردیتے تھے۔

سنن أبي داود (3/ 202):
"عَنْ مَالِكِ بْنِ هُبَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ فَيُصَلِّي عَلَيْهِ ثَلَاثَةُ صُفُوفٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، إِلَّا أَوْجَبَ» ، قَالَ: فَكَانَ مَالِكٌ «إِذَا اسْتَقَلَّ أَهْلَ الْجَنَازَةِ جَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ صُفُوفٍ لِلْحَدِيثِ»".
سنن الترمذي ت شاكر (3/ 338):
"عن مرثد بن عبد الله اليزني، قال: كان مالك بن هبيرة، إذا صلى على جنازة، فتقال الناس عليها، جزأهم ثلاثة أجزاء، ثم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى عليه ثلاثة صفوف فقد أوجب» وفي الباب عن عائشة، وأم حبيبة، وأبي هريرة، وميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم.: «حديث مالك بن هبيرة حديث حسن» هكذا رواه غير واحد، عن محمد بن إسحاق، وروى إبراهيم بن سعد، عن محمد بن إسحاق هذا الحديث، وأدخل بين مرثد، ومالك بن هبيرة رجلاً، ورواية هؤلاء أصح عندنا".
السنن الكبرى للبيهقي (4/ 48):
" عن مرثد بن عبد الله، عن مالك بن هبيرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما صلى ثلاثة صفوف من المسلمين على رجل مسلم يستغفرون له إلا أوجب " فكان مالك إذا صلى على جنازة يعني فتقال أهلها صفهم صفوفًا ثلاثة ثم يصلي عليها. لفظ حديث جرير بن حازم وفي رواية يزيد بن هارون " إلا غفر له ".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 214):
"ولهذا قال في المحيط: ويستحب أن يصف ثلاثة صفوف، حتى لو كانوا سبعة يتقدم أحدهم للإمامة، ويقف وراءه ثلاثة ثم اثنان ثم واحد. اهـ. فلو كان الصف الأول أفضل في الجنازة أيضا لكان الأفضل جعلهم صفا واحدًا ولكره قيام الواحد وحده كما كره في غيرها، هذا ما ظهر لي". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200184

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں