بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جائیداد کی تقسیم زندگی میں


سوال

ہم دو بھائی اورایک بہن تھے ، میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیاہے ، ابو امی الحمدللہ حیات ہیں ، میرے والد نے زمین میں سے جو حصے کیے ہیں  ان میں زیادہ حصہ بھابھی کے نام کردیا ہے، یعنی 24 ایکڑ  میں سے 12 بھابھی  کے نام 8 میرے نام اور 4 بہن کے نام، کیا یہ جائزہے؟  نہ صرف زمین کا  حصہ ان کو زیادہ دیا ہے، بلکہ سب سے زر خیز حصہ ان کو دیا ہے۔

اس میں ان کا یہ کہنا کہ بچے یتیم ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے جو 8ایکڑ دیے گئے وہ میں نے اپنے نام نہیں کروایا کہ پیسے نہیں تھے، اب میں نے ان 8 ایکڑ کا سودا کیا ہے۔ تو انہی کے ساتھ  4 ایکڑ بھی ابو نے بیچ دیے ہیں۔ میرا ٹکڑا مہنگا بکا ہے، بہن کا مجھ سے سستا بکا ہے، اب امی ابو کا کہنا ہے کہ ٹوٹل رقم جو 12 ایکڑ کی ہے، اس کے حصےتین حصے ہوں گے ایک بہن کا اور دو میرے۔  جب کہ  میرے 8 ایکڑ جو مجھے زبانی دیے گئے تھے، اس کو وہ مانتے ہیں  کہ آپ کو دیے ہیں، لیکن آپ نے نام نہیں کروائے، اب ہماری مرضی ویسا ہوگا۔

جواب

 آپ کے والد صاحب  اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کے اکیلے مالک ہیں ، اور اپنی جائیداد میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، لہذا اپنی جائیداد تقسیم کرتے وقت   کسی معقول وجہ سے اولاد میں سے کسی  کو زیادہ دینا چاہیں تو ان کو اختیار ہے، البتہ اس تقسیم میں بھی ان کو  بقیہ اولاد کا خیال کرنا چاہیے ۔ لہذا اگر انہوں نے آپ کی بھابھی اور ان کے بچوں کو بارہ ایکڑ زمین دی ہے تو انہیں اس کا حق ہے۔

باقی آپ اور آپ کی بہن کو زمین کا جو حصہ دیا گیااس میں بہتر تو یہ تھا کہ وہ دونوں کو برابر برابر حصہ دیتے، البتہ انہوں مذکورہ تقسیم کرکے اگر اس کا قبضہ آپ کو دے دیا تھا اور آپ نے قبضہ کرنے کے بعد   8 ایکڑ والے حصے کا سودا خود کیا یعنی قیمت آپ نے خود الگ لگائی تھی اور 4 ایکڑ کی قیمت الگ لگائی گئی تھی تو مذکورہ 8 ایکڑ زمین کی تمام رقم آپ کا حق ہے، محض نام تبدیل نہ کروانے کی وجہ سے والدین کو یہ رقم واپس لینے یا اس کی رقم اپنی مرضی سے تقسیم کرنے کا حق نہیں ہوگا۔

اور اگر مذکورہ زمین آپ کے قبضے میں نہیں دی گئی، بلکہ صرف زبانی طور پر کہا تھا، اور اب والدین اس کا سودا کرنے کے بعد اس کی قیمت تقسیم کررہے ہیں توانہیں چاہیے کہ ہدیہ (گفٹ) دینے میں اولاد میں برابری رکھیں، البتہ کوئی شرعی وجہ موجود ہو تو اولاد میں سے کسی ایک کو زیادہ دینے  کا انہیں حق ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200513

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں