بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد ساتھ رہنے کی صورت میں پیدا ہونے والی بچی کے نسب اور مطلقہ کی عدت کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ سے متعلق  کہ عمران نے اپنی منکوحہ کو نشہ کی حالت میں تین طلاقیں دیں اور طلاق دینے کے بعد غیر مقلدین علماء سے اس متعلق فتوی حاصل کیا ۔ جس میں انہوں نے عمران کو اپنی اہلیہ  سے رجوع کرنے کا کہا اور نکاح برقرار رہنے کا فتوی دیا۔ اس کے بعد عمران کی ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی اور اب تین سال بعد عمران دوبارہ اپنی اہلیہ کو غصہ کی حالت میں ایک طلاق مزید دے دیتا ہے۔

اب اس متعلق شرعی راہ نمائی فرمائیں آیا عمران کا اپنی اہلیہ کے ساتھ برقرار ہے یا ختم ہوچکا ہے؟  اور ایسے میں عدت کا حکم ہوگا؟  از راہ کرم تفصیلی راہ نمائی فرمائیں!

جواب

نشہ کی حالت میں بھی طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، لہٰذا  صورتِ مسئولہ میں عمران نے جس وقت نشہ کی حالت میں تین طلاقیں دی تھیں اسی وقت اس کی منکوحہ پر تینوں طلاقیں واقع ہو گئی تھیں، عمران کی بیوی اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی تھی، دونوں کا نکاح ختم ہوچکا تھا، اب رجوع بھی جائز نہیں اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ نکاح بھی جائز نہیں ہے،  لہٰذا تین طلاق کے بعد دونوں کا ساتھ رہنا بالکل ناجائز اور حرام تھا، لہٰذا دونوں پر لازم ہے کہ فوراً علیحدہ ہوجائیں اور اتنے عرصے ساتھ رہنے کی وجہ سے حرام کاری کے جو مرتکب ہوئے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور خوب توبہ و استغفار کریں، سوال میں جس فتوی کا ذکر ہے وہ فتویٰ چوں  کہ قرآن و حدیث کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ کے متفقہ فتوی کے مخالف ہے ؛ اس لیے یہ فتوی معتبر نہیں ہے۔

لہٰذا تین طلاق دینے کے باوجود عمران نے اگر اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم رکھا ہے تو یہ صریح زنا ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بچی کا نسب عمران سے ثابت نہیں ہوگا ،  بلکہ وہ ولد الزنا کہلائے گی اور نہ ہی بیوی پر اب جدا ہونےکےبعدمستقل عدت آئےگی،بیوی کی عدت طلاق کے وقت سےہی شمار ہوکرختم ہوچکی ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 187):

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره} [البقرة: 230]، وسواء طلقها ثلاثاً متفرقاً أو جملةً واحدةً".

صحيح البخاري (7/ 42):

"باب من أجاز طلاق الثلاث؛ لقول الله تعالى: ﴿الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان﴾ [البقرة: 229] ... حدثنا سعيد بن عفير، قال: حدثني الليث، قال [ص:43]: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته».

حدثني محمد بن بشار، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: حدثني القاسم بن محمد، عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»".

أحکام القرآن للجصاص (۱؍ ۳۸۸ ) دار الکتاب العربي بیروت:

"فالکتاب و السنة و إجماع السلف توجب إیقاع الثلاث معاً و إن کان معصیةً".

عمدة القاري شرح صحیح البخاري (۲۰ ؍ ۲۳۳ ) باب من أجاز طلاق الثلاث:

"و ذهب جماهیر التابعین و من بعدهم منهم الأوزاعي و النخعي و الثوري و أبو حنیفة و أصحابه و الشافعي و أصحابه و أحمد و أصحابه، إسحاق و أبوثور و أبو عبیدة و آخرون کثیرون علی من طلق  امرأته ثلاثاً وقعن، ولکنه یأثم".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 518):

"(وإذا وطئت المعتدة بشبهة) ولو من المطلق (وجبت عدة أخرى)؛ لتجدد السبب.

 (قوله: وإذا وطئت المعتدة) أي من طلاق، أو غيره هو منتقى، وكذا المنكوحة إذا وطئت بشبهة ثم طلقها زوجها كان عليها عدة أخرى وتداخلتا كما مر في الفتح وغيره (قوله: بشبهة) متعلق بقوله: وطئت، وذلك كالموطوءة للزوج في العدة بعد الثلاث بنكاح، وكذا بدونه إذا قال: ظننت أنها تحل لي، أو بعدما أبانها بألفاظ الكناية، وتمامه في الفتح، ومفاده أنه لو وطئها بعد الثلاث في العدة بلا نكاح عالماً بحرمتها لا تجب عدة أخرى؛ لأنه زنا، وفي البزازية: طلقها ثلاثاً ووطئها في العدة مع العلم بالحرمة لا تستأنف العدة بثلاث حيض، ويرجمان إذا علما بالحرمة ووجد شرائط الإحصان، ولو كان منكراً طلاقها لاتنقضي العدة، ولو ادعى الشبهة تستقبل. وجعل في النوازل البائن كالثلاث، والصدر لم يجعل الطلاق على مال والخلع كالثلاث، وذكر أنه لو خالعها ولو بمال ثم وطئها في العدة عالماً بالحرمة تستأنف العدة لكل وطأة وتتداخل العدد إلى أن تنقضي الأولى، وبعده تكون الثانية والثالثة عدة الوطء لا الطلاق حتى لايقع فيها طلاق آخر ولا تجب فيها نفقة اهـ وما قاله الصدر هو ظاهر. ما قدمناه أنفاً عن الفتح حيث جعل الوطء بعد الإماتة ألفاظ الكناية من الوطء بشبهة أي لقول بعض الأئمة بأنه لا يقع بها البائن فأورث الخلاف فيها شبهة (قوله: ولو من المطلق) أي كما مثلنا آنفاً. ثم الأولى أن يقول: ولو من غير المطلق؛ لما في الفتح من أن الشافعي وافقنا في أحد قوليه فيما إذا كان الواطئ المطلق. اهـ. فعلم أن غير المطلق هو محل الخلاف، فكان المناسب التنصيص عليه ليدخل المطلق بالأولى.

وفي الدرر: اعلم أن المرأة إذا وجب عليها عدتان، فإما أن يكونا من رجلين، أو من واحد، ففي الثاني لا شك أن العدتين تداخلتا، وفي الأول إن كانتا من جنسين كالمتوفى عنها زوجها إذا وطئت بشبهة، أو من جنس واحد كالمطلقة إذا تزوجت في عدتها فوطئها الثاني وفرق بينهما تداخلتا عندنا ويكون ما تراه من الحيض محتسباً منهما جميعاً، وإذا انقضت العدة الأولى ولم تكمل الثانية فعليها إتمام الثانية. اهـ".

الهدایة (۲ ؍ ۴۳۸ ):

"لأن النسب کما یثبت بالنکاح الصحیح یثبت بالنکاح الفاسد و بالوطئ عن شبهة و بملک الیمین".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 549):

" لأن النسب كما يثبت بالنكاح الصحيح يثبت بالنكاح الفاسد وبالوطء عن شبهة وبملك اليمين".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں