بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین شرطوں کے ساتھ طلاق


سوال

 ایک آدمی نے اپنے بیوی سے جھگڑنے کی حالت میں کہا کہ اگرمیں اپنےمامو ں کی گھرجاؤں توتجھے تین شرطوں کے ساتھ طلاق۔ اب اس آدمی نے ان شرائط کی وضاحت نہیں کی اوربعدمیں جب اس سے پوچھاگیاکہ تین شرطوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟ تووہ کہتاہے کہ کوئی نہیں ہے۔  تو اب آیا اس صورت میں اس کا شرعی حکم کیا ہے؟  یعنی طلاق واقع ہو گئی ہیں یانہیں؟

جواب

اگر   شوہر اپنے ماموں کے گھر گیا  تو تین طلاقیں فوراً  واقع ہو کر بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جائے گی۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند 9-194 میں ہے:

’’اپنی بیوی سے کہا: "یہ عورت مجھ پر تین شرط طلاق ایک دفعہ ہے"  تو کیا حکم ہے ؟
(سو ال ۳۲۰) ایک شخص نے غصہ کی حالت میں اپنی عورت کو یہ کہا کہ یہ عورت مجھ پر تین شرط طلاق ایک دفعہ ہے ، اس طور پر کہہ دیا اور عدت کے اندر زبانی رجعت بھی کر لی ، آیا بغیر نکاح و حلالہ کے یہ عورت اس پر جائز ہوسکتی ہے یا نہیں؟
(جواب) اس صورت میں اس کی زوجہ پر تین طلاق واقع ہوگئی، اور وہ عورت مطلقہ ثلاثہ ہو کر مغلظہ بائنہ ہوگئی، بدون حلالہ کے اس سے شوہر اول دوبارہ نکاح نہیں کرسکتا اور ر جعت صحیح نہیں ہوئی،  کیوں کہ ایک دفعہ تین طلاق دینے سے بھی تین طلاق واقع ہوجاتی ہے۔  

قال فی الدر المختار:  والبدعی ثلاث متفرقۃ۔  قال فی الشامی:  وکذا بکلمۃ واحدۃ بالا ولی الخ وذھب جمہور الصحابۃ والتابعین ومن بعد ھم من ائمۃ المسلمین الیٰ انہ یقع ثلث الخ ‘‘۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200968

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں