بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تولیدی صلاحیت کے جانچنے کے ٹیسٹ کے لیے مادہ منویہ کا اخراج


سوال

آج کل بچہ نہ ہونے کی وجہ سے زوجین کی جانچ ہوتی ہے، مرد کی جانچ کا طریقہ کا یہ ہے کہ  اس کی منی کی جانچ ہوتی ہے جو کہ  مشت زنی کے ذریعہ نکالی جاتی ہے، اگر پہلے سے جماع کے ذریعہ منی دی جاۓ تو ان لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کے فوراً منی نکال کر دو، ورنہ اس کے جراثیم مر جاتے ہیں؛ اس لیے وہ مشت زنی کا بولتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

اولاد اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، لیکن یہ محض اسی کی دَین اور عطا ہے، وہ جسے چاہے تولیدی صلاحیت اور طاقت کے باوجود اولاد نہ دے، مسلمان کو چاہیے کہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں وہ جائز طریقۂ علاج تو اختیار کرے، لیکن رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف رکھے، اور اس معاملے کو اللہ پاک کے حوالے کردے؛ بسا اوقات تولیدی صلاحیت جاننے کے باوجود بھی نتائج حاصل نہیں ہوتے، اور بعض اوقات میاں بیوی میں سے کسی ایک میں تولیدی صلاحیت نہ ہونے کا علم ہوجائے تو  وہ موردِ طعن بھی بن جاتاہے، بعض اوقات بیوی کے بانجھ پن کی صورت میں اسے طلاق ہوجاتی ہے۔  بہرحال کسی مضبوط داعیے اور باعث کے بغیر  صرف اس جستجو  کی وجہ سے مادۂ تولید کی جانچ پسندیدہ نہیں ہے۔

تاہم اگر کسی مرض یا ضرورت کی وجہ سے مستند اوردین دارڈاکٹر تولیدی صلاحیت  جانچنے اور اس کے علاج کے لیے  اس   ٹیسٹ کا  مشورہ دیں تو اس   کی گنجائش ہے، مگر مادۂ تولید کے اخراج کے لیے جائز طریقےکا استعمال کرناہوگا، اگر جماع سے منی کے حصول کے بعد اس کے جراثیم کے مرجانے کا اندیشہ ہو تو بیوی کے ہاتھ سے یہ عمل کرکے مادہ منویہ حاصل کرلینے  کی گنجائش ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 399):
"ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة: أنه يكره. ولعل المراد به كراهة التنزيه، فلاينافي قول المعراج: "يجوز"، تأمل ... بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعًا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلًا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله: وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك، والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح، كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه، وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضًا، ويدل أيضًا على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى: {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال: فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما، هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں