بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ گھر میں جمع کرانے کی صورت میں قربانی اور زکاۃ کا حکم


سوال

اگر گھر میں ایک سے زیادہ کمانے والے ہوں اور گھر کا خرچہ مشترکہ ہو، سب کمانے والے اپنی تنخواہ گھر میں جمع کروا دیتے ہوں تو قربانی اور زکاۃ کا کیا حکم ہوگا? 

جواب

گھر کے خرچوں میں اس رقم کے صرف ہونے کے بعد کچھ رقم بچ جائے تو دیکھیں گے کہ اگر اس بقیہ رقم کو ہر ایک کی کل جمع  کرائی گئی رقم کے تناسب سے واپس کیا جائے تو وہ نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ) تک پہنچے گی یا نہیں؟  جس کے حصے کی رقم نصاب تک پہنچ جائے تو اس پر قربانی واجب ہوگی اور سال گزرنے کی صورت میں زکاۃ بھی واجب ہوگی، البتہ اگر رقم بچے ہی نہیں یا بچے لیکن نصاب کے بقدر نہ ہو تو پھر نہ قربانی واجب ہوگی اور نہ ہی زکاۃ۔  لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ ان افراد کی ملکیت میں الگ سے مزید پیسے یا سونا، چاندی وغیرہ (نصاب کے بقدر ) نہ ہوں ، کیوں کہ اگر الگ سے نصاب کے برابر پیسے یا سونا، چاندی ملکیت میں ہوں تو اس کی وجہ سے قربانی اور زکاۃ دونوں لازم ہوں گے، چاہے گھر کے مشترکہ خرچوں کے لیے جمع کرائی گئی رقم میں سے کچھ بچے یا نہیں۔

واضح رہے کہ مذکورہ حکم اس وقت ہے جب کہ کمانے والے افراد صرف گھر کے خرچے کے لیے تنخواہ جمع کراتے ہوں، گھر کے سربراہ کو مالک بناکر نہ دیتے ہوں،لیکن اگر کمانے والےافراد اپنی تنخواہ یا اس کا متعینہ حصہ گھر کے سربراہ  (مثلاً: والد یا والدہ) کی ملکیت میں دے دیتے ہوں کہ وہ جس طرح چاہے خرچ کرے، اور خرچے کے بعد بچ جانے والی رقم گھر کے سربراہ کی ملکیت میں رہتی ہو، کمانے والوں کو واپس نہ کی جاتی ہو تو چوں کہ اس کا مالک گھر کا سربراہ ہوگا، اس لیے اگر مذکورہ رقم ضروری اخراجات کے بعد نصاب(ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ) کے برابر یا اس سے زیادہ ہو یا اس رقم کے علاوہ نصاب کے بقدر یا اس سے زیادہ مال سربراہ کی ملکیت میں موجود ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی، اور مال اگر بڑھنے والا ہو (سونا، چاندی، نقدی یا مال تجارت ہو) تو سال گزرنے پر زکاۃ بھی ہوگی، اس صورت میں گھر کے اخراجات میں دی جانے والی اس رقم کی زکاۃ کمانے والوں پر نہیں ہوگی، نہ ہی ان پر اس رقم کی وجہ سے قربانی ہوگی، البتہ اگر کمانے والوں کی اپنی ملکیت میں نصاب کے بقدر یا اس سے زیادہ مال موجود ہو تو ان پر قربانی اور زکاۃ کے احکام لاگو ہوں گے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143812200002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں