بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیمِ میراث کی ایک صورت


سوال

میرے سسر کا انتقال ہوگیا ہے اور ان کے ترکہ کی تقسیم کا کام میرے ذمہ لگایا گیا ہے، ان کے ورثاء میں ایک بیوہ، ایک بیٹی، تین بہنیں اور دو بھائی ہیں۔

ان کی چیزیں ان شکلوں میں ہیں کہ ایک کمپنی میں شیئرز ہیں ان کے نام کے، ان کی بیوی کے نام کے، ان کی بیٹی کے نام کے، میرے نام کے(ان کا داماد) اور ان کے  بھتیجے کے نام کے۔

اسی طرح بینک بیلنس ہے  جوائنٹ اکاونٹ میں اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ۔

کچھ سونا ہے جو کہ بیوہ اور بیٹی کے پاس مشترکہ طور پر ہے۔

کچھ نقدی رقم انہوں نے اپنے سسر کے پاس رکھوائی تھی جو بیرونِ ملک میں رہ رہے ہیں، اس بات کے ساتھ کے جب ان کے سسر اپنی جائیداد بیچیں گے تو اس وقت اس رقم کے معاملات کا حساب کرلیں گے۔

زندگی میں میرے سسر اپنی بیوی، بیٹی اور مجھ سے کہتے تھے کہ جو کچھ بھی ہے وہ ہمارا (ہم تین) کا ہے چاہے لکھا ہوا نہ ہو۔

آپ شرعی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

آپ کے سسر کی جائیداد کی شرعی تقسیم یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی اور جائز وصیت پر شریعت کے مطابق عمل کرنے کے بعد(سوال میں مذکور وصیت کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی) باقی ماندہ ترکہ کا 12.5% مرحوم کی بیوہ کو، 50% بیٹی (آپ کی بیوی) کو، 15% ہر بھائی کو اور 7.5% ہر بہن کو ملےگا۔

مرحوم نے جو کمپنی کے شیئرز  دوسروں کے نام کیے، اگر ان شیئرز کا قبضہ بھی دوسروں کو دے دیا ہو تو وہ مرحوم کے ترکہ میں شامل نہیں ہوں گے اور قبضہ نہ دینے کی صورت میں وہ مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوں گے۔

جوائنٹ اکاونٹ کے پیسے بھی ترکہ میں شامل ہوں گے۔

اگر سونا بطور ملکیت کے بیوہ یا بیٹی کو دے دیا تھا تو وہ ترکہ میں شامل نہیں ہوگا اور اگر ملکیت مرحوم کی تھی، صرف بطور استعمال کے دیا تھا تو وہ سونا ترکہ میں شامل ہوگا۔

جو پیسے مرحوم نے اپنے سسر  کو رکھوائے تھے، اگر بطور امانت کے تھے تو وہ پورے پیسے ترکہ میں شامل ہوں گے۔ اگر ان سے کوئی لین دین کا حساب ہو تو اس کے مطابق حساب کرکے اگر  پیسے بچ جائیں تو وہ بھی ترکہ میں شامل ہوں گے۔

باقی جس وصیت کا آپ نے ذکر کیا  تو واضح رہے کہ اپنے وارث کے حق میں وصیت دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر نافذ نہیں ہوتی؛ لہذا اگر دیگر ورثاء اجازت دیں تو آپ، آپ کی بیوی اور آپ کی ساس (یعنی مرحوم کا داماد، بیٹی اور بیوہ) کل ترکہ کو آپس میں تقسیم کرسکتے ہیں اور اگر اجازت نہیں دیں تو اس وصیت کی بنا پر آپ کی بیوی اور ساس اپنے شرعی حصے سے زیادہ کی مستحق نہیں ہوں گی۔ رہی بات جو وصیت انہوں نے آپ کے لیے کی ہے، تو اگر مرحوم کی تحریر، یا کسی شرعی ثبوت سے آپ وہ وصیت ثابت کردیں یا دیگر ورثاء اس کا اقرار کرلیں تو وصیت کی بنا  پر ترکہ کا ایک تہائی حصہ آپ کو دیا جائے گا اور پھر باقی ترکہ ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں