بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیم ترکہ دو بیٹے دو بیٹیاں


سوال

 چند سال پہلےمیرے والد صاحب نے اپنا مکان بارہ لاکھ میں بیچا تھا اور میرے پاس نو لاکھ روپے تھے تو ہم نے ایک مکان بیس لاکھ میں خریدا جس میں نو لاکھ میرے اور گیارہ لاکھ والد صاحب کے تھے،  پھر ہم سب والد صاحب کے ساتھ  اسی مکان میں مقیم رہے۔اب والد صاحب کے انتقال کے بعد اس مکان کی مالیت نوے 90لاکھ روپے ہو چکی ہے،  ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں تو ہم میں اس کی تقسیم کیسے ہوگی ؟ یاد رہے کہ 9 لاکھ میں نے خریدنے کے وقت دیے تھے باقی گیارہ میرے والد نے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ گھر کی خریداری میں اگر سائل نے بطورِ  شریک نو لاکھ شامل کیے تھے اور اس کے اور والد کے درمیان شراکت داری طے پائی تھی تو ایسی صورت میں مذکورہ گھر میں والد اور سائل دونوں شریک ہوں گے، اور والد کی وفات کے بعد مذکورہ گھر میں سے صرف والد کا حصہ ورثہ میں بقدرِ  حصص شرعیہ تقسیم کیا جائے گا، اور اگر خریداری کے وقت بطورِ قرض یہ رقم دینے کی تصریح کردی تھی کہ والد اتنی رقم بیٹے کو بعد میں ادا کریں گے اور گھر والے اس بات کو مانتے ہوں تو 9 لاکھ روپے بطورِ قرض سائل کو ادا کرنے کے بعد بقیہ رقم ترکہ میں تقسیم ہوگی۔

البتہ اگر خریداری کے وقت شراکت داری کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا، نہ ہی اس وقت گھر کے دیگر افراد کے سامنے زبانی وضاحت کی گئی تھی کہ یہ رقم قرض کے طور پر ہے، بلکہ سائل نے خریداری میں تبرعاً بیٹے ہونے کی حیثیت سے رقم شامل کی تھی تو ایسی صورت میں مذکورہ گھر والد کا ترکہ شمار ہوگا، اور اس میں تمام ورثاء حصصِ  شرعیہ کے بقدر شریک ہوں گے، نو لاکھ کی شمولیت کی وجہ سے سائل کو  زائد حصہ نہیں ملے گا، بہر صورت کل ترکہ کو چھ حصوں میں تقسیم کرکے ہر  ایک بیٹے کو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا،  یعنی سو روپے میں سے تینتیس عشاریہ تین تین روپے ہر ایک بیٹے کو اور  سولہ عشاریہ چھ چھ روپے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201824

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں