بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تعلیمی اداروں میں تادیب کی غرض سے بچوں کو سزا دینا اور اس کی شرائط


سوال

 آج کل دیکھنے میں آتا ہے کہ اسکول, کالج,  مدرسے وغیرہ میں ٹیچرز, استاذ بچوں کو مارتے ہیں، مختلف سزائیں دیتے ہیں، اور استاذ کی مار پر فضائل بھی سننے میں آتے ہیں کہ جس جگہ استاد کی مار پڑی ہو جہنم کی آگ اس کو نہیں چھوسکے گی۔  کیا یہ سزائیں دینا ، مار نا ، اور اس پر جو فضائل ہیں یہ درست ہیں؟

اسی حوالے سے کچھ عرصہ قبل جامعہ بنوری ٹاؤن کی ایپ پر ایک فتویٰ پڑھا تھا، اس میں کافی شرائط لگائی گئیں تھیں مارنے کے حوالے سے، لیکن بعد میں بسیار تلاش کے باوجود وہ استفتا نہیں مل سکا۔  براہِ کرم اس مسئلے کی تفصیلی وضاحت فرمائیں!

جواب

بچوں کو پڑھانا اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کی تربیت  کرنا نہایت اہم اور نیک کام ہے، شریعتِ مطہرہ نے جہاں  ہر نیک کام کی ترغیب دی وہاں اس کے لیے کچھ شرائط، حدود وقیود بھی مقر ر  کیے ہیں ، اگر نیک کام میں شرعی اصول وضوابط کی رعایت نہ کی جائے تو  وہ نیک کام بھی ثواب کے بجائے وبال کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

         بچوں کی تعلیم وتربیت میں  نرمی وسختی دونوں پہلوؤں  میں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے،   غصہ میں بے قابو ہوکر حد سے زیادہ مارنا اور یا مارنے کو بالکل غلط سمجھنا دونوں باتیں غلط ہیں، جس طرح نرمی اور محبت سے بچوں کی  تعلیم وتربیت  کرنا  بہتر ہے اسی  طرح ناگزیر وجوہات کی بنا پر تنبیہ کی غرض سے بچوں کو سزا دینا بھی جائز ہے، نبی کریم ﷺ کا  فرمان ہے کہ" جب بچے سات سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز کا حکم دو، اور جب  وہ دس سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز نہ پڑھنے پر مارو"،اسی طرح حدیثِ مبارک  میں آتا ہے کہ  گھر میں ایسی جگہ کوڑا لٹکا کر رکھو جہاں سے وہ گھر والوں کو نظر آئے؛ کیوں کہ یہ ان کی تادیب کا ذریعہ ہے۔ امام  بخاری ؒ نے اپنی  کتاب صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے ” باب التوثق ممن تخشی معرته“ (جس سے فساد کا خطرہ ہو اس کو باندھنا)، اور اس کے تحت ذکر کیا ہے کہ عبد اللہ ابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عکرمہ ؒ کو  فرائض، سنن اور تعلیمِ قرآن کے لیے باندھا کرتے تھے، طبقاتِ کبریٰ میں ہے کہ  حضرت عکرمہ ؒفرماتے ہیں کہ ابن عباس ؓ قرآن وسنت کی تعلیم کے لیے میرے پاؤں میں بیڑی ڈالا کرتے تھے، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ سرپرست حضرات اور اساتذہ کے لیے بچوں کو تادیب اور تنبیہ کی غرض سے  مناسب سزا دینا جائز ہے، لیکن اس  کے لیے فقہاء کرام نے چند شرائط ذکر کی ہیں ، ان کی شرائط کی رعایت کرنا ضروری ہے:

1۔۔   بچوں کے والدین سے اس کی اجازت لی ہو۔

2۔۔  سزا سے مقصود تنبیہ و تربیت ہو، غصہ یا انتقام کے جذبہ کی تسکین نہ ہو۔

3۔۔ ایسی سزا شرعاً ممنوع نہ ہو۔

4۔۔ غصہ کی حالت میں نہ مارا جائے، بلکہ جب غصہ اتر جائے تو مصنوعی غصہ کرتے ہوئے سزا دے۔

5۔۔ بچوں کی طبیعت اس کی متحمل ہو، یعنی بچوں کو ان کی برداشت سے زیادہ نہ مارے۔

6۔۔  مدرسہ کے ضابطہ کی رو سے اساتذہ کو اس طرح کی تادیب کی اجازت ہو۔

7۔۔ ہاتھ سے مارے، لاٹھی ، ڈنڈا، کوڑے وغیرہ سے نہ مارے، اگر بالغ ہو تو بقدرِ ضرورت لکڑی سے بھی مار سکتا ہے  بشرطیکہ برداشت سے زیادہ نہ ہو۔

8۔۔ ایک وقت میں تین سے زیادہ ضربات نہ مارے، اور نہ ہی ایک جگہ پر تینوں ضربات مارے، بلکہ تین ضربات متفرق جگہوں پر مارے۔

9۔۔  سر، چہرے اور شرم گاہ پر نہ مارے۔

10۔۔     بچہ تادیب کے قابل ہو، اتنا چھوٹا بچہ جو تادیب کے قابل نہ ہو اس کو مارناجائز نہیں ہے۔

11۔۔    ایسی سزا  جس سے ہڈی ٹوٹ جائے یا جلد پھٹ جائے یا جسم پر سیاہ داغ پڑجائے، یا دل پر یا جسم کے کسی نازک حصے پر اس کا اثر ہو ، شرعاً جائز نہیں ہے۔

        واضح رہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت میں نرمی اور محبت کا انداز اختیار کرنا چاہیے ، بے جا مار پیٹ سے بچے  ڈھیٹ ہوجاتے ہیں، پھر ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا ،  اور زیادہ مارنا  تعلیم وتربیت کے لیے مفید بھی نہیں، بلکہ نقصان دہ ہے ،   ایک تو یہ کہ اس سے  بچہ کے  اعضاءکم زورہوجاتے ہیں، دوسرایہ کہ ڈرکے مارے سارا پڑھا لکھا بھو ل جاتے ہیں ،تیسرایہ کہ جب پٹتے پٹتے عادی ہوجاتے ہیں  تو بے حیا  بن جاتے ہیں،  پھرمار  سے ان پرکچھ اثر بھی نہیں ہوتا، اور اس کے مقابلے میں نرمی اور محبت  اور بسا اوقات حوصلہ افزا ئی  کے لیےانعام دینےاور محبت کا طریقہ زیادہ سود مند ہے، اور زیادہ مارنا  تعلیم وتربیت کے لیے مفید طریقہ نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت نرمی اور محبت سے فرمائی ہے، اپنے خدام سے بھی رسول اللہ ﷺ کبھی سختی سے پیش نہیں آئے۔ اس لیے حتی الامکان نرمی اور شفقت کے ساتھ بچوں کی تربیت کرنی چاہیے۔  اور اگر ضرورت کے وقت سزا دینے کی بھی ضرورت ہوتو تدریجاً  سزا دے مثلاً  (1) ملامت کرنا (2) ڈانٹنا، (3) کان کھینچنا،(4)  ہاتھ سے مارنا وغیرہ۔

         نیز مدرسہ میں بچوں کو سبق، سبقی، منزل یاد نہ ہونے پر یا مدرسہ کی چھٹی کرنے پر درج ذیل سزائیں دی جاسکتی ہے:

(1)ان کی  کچھ وقت کے لیے چھٹی بند کردی جائے، اس کا  بچوں پر  کافی اثر ہوتا ہے۔ (2) کھڑا کردیا جائے۔ (3) اٹھک بیٹھک (اٹھنا بیٹھنا) کرایا جائے۔  یہ آخری دو سزاؤں میں  جسمانی اور اخلاقی دونوں اصلاحیں ہوجاتی ہیں، یعنی ورزش بھی ہوجاتی  ہے، تنبیہ بھی ہوجاتی ہے، لیکن  اس میں بھی اس کی رعایت کی جائے کہ برداشت سے زیادہ نہ ہو۔

سنن أبي داود میں ہے:

" عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها، وهم أبناء عشر وفرقوا بينهم في المضاجع»". (1/ 133، کتاب الصلاة، باب متی یومر الغلام  بالصلاة، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(واضربوهم عليها) : أي: على ترك الصلاة (وهم أبناء عشر سنين) : لأنهم بلغوا، أو قاربوا البلوغ". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 512) کتاب الصلاة، دار الفكر، بيروت – لبنان)

المعجم الكبير للطبرانيمیں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «علقوا السوط حيث يراه أهل البيت؛ فإنه لهم أدب". (10/ 284،باب العین،  علي بن عبد الله، ط: مكتبة ابن تيمية، القاهرة)

صحیح بخاری میں ہے:

"باب التوثق ممن تخشى معرته، وقيد ابن عباس عكرمة على تعليم القرآن، والسنن والفرائض". (3/ 123،  کتاب الخصومات، ط:دار طوق النجاة)

الطبقات الكبرى  میں ہے:

"عن عكرمة قال: كان ابن عباس يجعل في رجلي الكبل يعلمني القرآن ويعلمني السنة". (الطبقات الکبری لابن سعد،(5/ 219)، بقیة الطبقة الثانیة من التابعین،  عکرمة، ط:دارالکتب العلمیة بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"لايجوز ضرب ولد الحر بأمر أبيه، أما المعلم فله ضربه لأن المأمور يضربه نيابة عن الأب لمصلحته، والمعلم يضربه بحكم الملك بتمليك أبيه لمصلحة التعليم، وقيده الطرسوسي بأن يكون بغير آلة جارحة، وبأن لايزيد على ثلاث ضربات ورده الناظم بأنه لا وجه له، ويحتاج إلى نقل وأقره الشارح قال الشرنبلالي: والنقل في كتاب الصلاة يضرب الصغير باليد لا بالخشبة، ولايزيد على ثلاث ضربات". (6/ 430، کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، فروع، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"(وإن وجب ضرب ابن عشر عليها بيد لا بخشبة) لحديث: «مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر.

 (قوله: بيد) أي ولايجاوز الثلاث، وكذلك المعلم ليس له أن يجاوزها، «قال عليه الصلاة والسلام لمرداس المعلم: إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك». اهـ إسماعيل عن أحكام الصغار للأستروشني، وظاهره أنه لايضرب بالعصا في غير الصلاة أيضاً.(قوله: لا بخشبة) أي عصا، ومقتضى قوله: بيد أن يراد بالخشبة ما هو الأعم منها ومن السوط أفاده ط.(قوله: لحديث إلخ) استدلال على الضرب المطلق، وأما كونه لا بخشبة فلأن الضرب بها ورد في جناية المكلف. اهـ. (1/ 352، کتاب الصلاة، ط: سعید)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"(قوله: بيد) قيد في امداد الفتاح بكونه ثلاث ضربات فقط، ويفهم منه انه  لايضرب بالعصا في جميع ما أمر به ونهي عنه  فليراجع حلبي، والمنصوص انه يجوز للمعلم أن يضربه باذن أبيه نحو ثلاث ضربات ضرباً وسطاً سليماً ولم يقيد بغير العصا ... (قوله: لا بخشبة) مقتضي قوله: بيد، أن يراد بالخشبة ما هو الأعم منها ومن السوط، (قوله: لحديث) استدلال علي الضرب المطلق، وأما كون الضرب لا بخشبة فلأن الضرب بها ورد في جناية  صادرة  من المكلف ولا جناية من الصغير". (حاشیة الطحطاوي علی  الدر المختار، (1/169، 170،  کتاب الصلاة، ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"لو ضرب المعلم الصبي ضرباً فاحشاً) فإنه يعزره ويضمنه لو مات، شمني

 (قوله: ضرباً فاحشاً) قيد به؛ لأنه ليس له أن يضربها في التأديب ضرباً فاحشاً، وهو الذي يكسر العظم أو يخرق الجلد أو يسوده، كما في التتارخانية. قال في البحر: وصرحوا بأنه إذا ضربها بغير حق وجب عليه التعزير اهـ أي وإن لم يكن فاحشاً". (4/ 79، کتاب الحدود، باب التعزیر، ط: سعید)

مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا ضرب أحدكم فليتق الوجه» . رواه أبو داود". (2/ 1079،  کتاب الحدود، باب التعزیر، الفصل الثاني، ط: المکتب الإسلامي بیروت)

الموسوعة الفقهية الكويتيةمیں ہے:

"للمعلم ضرب الصبي الذي يتعلم عنده للتأديب . وبتتبع عبارات الفقهاء يتبين أنهم يقيدون حق المعلم في ضرب الصبي المتعلم بقيود منها:

أ - أن يكون الضرب معتادا للتعليم كماً وكيفاً ومحلاً، يعلم المعلم الأمن منه، ويكون ضربه باليد لا بالعصا، وليس له أن يجاوز الثلاث، روي أن النبي عليه الصلاة والسلام قال لمرداس المعلم رضي الله عنه: إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك.

ب - أن يكون الضرب بإذن الولي، لأن الضرب عند التعليم غير متعارف، وإنما الضرب عند سوء الأدب، فلا يكون ذلك من التعليم في شيء، وتسليم الولي صبيه إلى المعلم لتعليمه لايثبت الإذن في الضرب، فلهذا ليس له الضرب، إلا أن يأذن له فيه نصا.ونقل عن بعض الشافعية قولهم: الإجماع الفعلي مطرد بجواز ذلك بدون إذن الولي  .

ج - أن يكون الصبي يعقل التأديب، فليس للمعلم ضرب من لا يعقل التأديب من الصبيان، قال الأثرم: سئل أحمد عن ضرب المعلم الصبيان، قال: على قدر ذنوبهم، ويتوقى بجهده الضرب وإذا كان صغيرا لا يعقل فلا يضربه . (13/ 13،  تعلیم وتعلم ، الضرب للتعلیم، ط: دارالسلاسل، کویت)

باقی یہ بات کہ ”استاذ کی مار جسم کے جس حصے پر لگے اس پر جہنم کی آگ حرام ہوجاتی ہے“  تلاش اور تتبع کے باوجود  ہمیں حدیث کی کسی بھی  کتاب میں نہیں مل سکی؛  اس لیے اس کی نسبت آپ ﷺ کی طرف نہ کی جائے۔ فقط واللہ اعلم

جامعہ کی ویب سائٹ/ ایپ پر اس حوالے سے شائع شدہ فتاویٰ  کا لنک درج ذیل ہے:

حفظ کرانے کی خاطر بچوں کو مارنا، ان کو زنجیر سے باندھنا

شاگردوں کو سزا دینا اور لاٹھی سے مارنا


فتوی نمبر : 144012200578

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں