بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مختلف اقسام کی تصاویر سے متعلق احکام


سوال

تصویر کے متعلق شرعی احکام کیا ہیں؟  کیا فیس بک پر تصویر لگانا جائزہے؟ گھر پر کتابوں اور بچوں کے بستوں پر تصویریں ہوتی ہیں ، ان کے گھر میں ہونے سےنماز ہوجاتی ہے؟  مختلف قسم کی تصاویر کےحکم کے متعلق تفصیل آگاہ کیجیے!

جواب

فیس بک یا کسی بھی جگہ پر جان دار کی تصویر لگانا ناجائز ہے۔ 

اگر کسی نمازی  کے سامنے یا دائیں بائیں کسی کمرے میں کتابوں پر یا بچوں کے بستوں پر یا کسی بھی چیز پر جان دار کی تصویر ہو تو نماز مکروہ ہوجاتی ہے، اس لیے ایسی تصاویر  میں سر کوکسی چیز سے کاٹ دیا جائے یا پھر اسے قلم یا دھاگے کے ذریعہ ایسا بنا دیا جائے کہ اس کا سر نمایاں نہ رہے، البتہ اگر تصویر چھپی ہوئی ہو، مثلاً  کتاب کے اندورنی صفحات پر ہو  اور کتاب بند ہو،  یا کتاب کے ٹائٹل یا جلد پر کاغذ وغیرہ کی شیٹ چڑھا دی گئی ہو  تو پھر نماز میں کراہت نہیں ہے۔

جان دار کی تصویر بغیر ضرورتِ شدیدہ کے بنانا یا بنوانا ناجائز ہے،  غیر جان دار کی ایسی تصاویر جو اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں، وہ جائز ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراماً لا مكروهاً إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره...

(قوله: أو مقطوعة الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي، وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق له أثر، أو بطليه بمغرة أو بنحته، أو بغسله؛ لأنها لا تعبد بدون الرأس عادةً، وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك، وقيد بالرأس، لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين، لأنها تعبد بدونها، وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين، بحر (قوله: أو ممحوة عضو إلخ) تعميم بعد تخصيص، وهل مثل ذلك ما لو كانت مثقوبة البطن مثلاً. والظاهر أنه لو كان الثقب كبيراً يظهر به نقصها فنعم، وإلا فلا؛ كما لو كان الثقب لوضع عصاً تمسك بها كمثل صور الخيال التي يلعب بها؛ لأنها تبقى معه صورة تامة، تأمل.

هذا كله في اقتناء الصورة، وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقاً، لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى، كما مر". (۱/۶۴۸) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں