بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تصویر ساز کی آمدنی کا حکم


سوال

 میرا خالہ زاد بھائی ایک ٹی وی چینل میں کام کرتا ہے، وہ بذاتِ خود تصویر یا ویڈیو نہیں بناتا،  مگر ٹی وی پر آنے والے پروگرام کے انتظامات کرتا ہے۔  دریافت کرنا تھا:

1. کیا اس کی امدنی حلال ہے؟

2۔ اگر اس کی آمدنی حلال نہیں ہے تو کیا اس کے گھر کا کھانا مجبوراً کھانا جائز ہے؟

3۔ اگر کھانا کھانے سے انکار کر دیا جائے اور وہ ناراض ہو جائے تو کیا یہ قطع رحمی میں شمار ہوتا ہے؟

جواب

(۱)۔۔۔صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ شخص کی آمدنی حلال نہیں ۔

(۲) ۔۔۔غالب آمدنی اگر حلال کی ہے تو کھانا جائز ہے،  ورنہ نہیں ۔

(۳)۔۔۔اگر کھانا  ناجائز وحرام آمدنی کا ہے تو کھانے سے انکار کی صورت  میں ناراضی قطع رحمی میں شمار  نہیں  ہوگی ۔

وفي جواهر الفقه للمفتي محمد شفیع ؒ:

" والثاني :بتصريح المعصية في صلب العقد كمن قال: بعني هذا العصير؛ لأتخذه خمرًا، فقال: بعته، أو آجر لي  بيتك لأبيع فيه ا لخمر، فقال: آجرته، فإنه بهذا التصريح  تضمن نفس العقد معصية مع قطع النظر عما يحدث بعد ذلك من اتخاذه خمرًا، وبيع الخمر فيه ... وعلي هذا فخرجت هذه الجزئيات كلها من باب الإعانة  على المعصية  حقيقة ... مع كون  الإعانة علي المعصية حرامًا بنص القرآن ... الخ" (تفصيل الكلا م في مسألة الإعانة علی الحرام، ج:۲،ص:۴۴۸،۴۴۷،ط:دار العلوم کراچی )

وفي مجمع الأنهر شرح ملتقی الأبحر لشیخی زاده:

"(ولايجوز قبول هدية أمراء الجور)؛ لأن الغالب في مالهم الحرمة (إلا إذا علم أن أكثر ماله من حل) بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به.

وفي البزازية: غالب مال المهدي إن حلالًا لا بأس بقبول هديته وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام؛ لأن أموال الناس لايخلو عن حرام فيعتبر الغالب، وإن غالب ماله الحرام لايقبلها ولايأكل إلا إذا قال: إنه حلال أورثته واستقرضته، ولهذا قال أصحابنا لو أخذ مورثه رشوةً أو ظلمًا إن علم وارثه ذلك بعينه لايحل له أخذه، وإن لم يعلمه بعينه له أخذه حكمًا لا ديانةً فيتصدق به بنية الخصماء." (کتاب الکراهية، فصل  في الکسب ،ج:۲،ص:۵۲۹،ط: دار إحياء التراث العربي)

وفي المعجم الکبیر للطبراني:

"عن عمران بن حصين قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق»". (هشام بن حسان عن الحسن عن عمران، ج:۱۸،ص:۱۷۰، رقم:۳۸۱،ط:ابن تیمیة،القاهرة) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200823

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں