بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ پر بیٹوں کا قبضہ کرنا اور بیٹی کو حصہ نہ دینا جائز نہیں


سوال

میرے دادا صاحب فوت ہوگئے تو میراث میں انہوں نے زمین چھوڑی اور اس وقت میرے دادا کے دو بیٹے اور ایک بیٹی موجود تھی جوکہ میری ماں ہے تو دو بیٹوں نے اپنی بہن کی رضا مندی اور اس کو اطلاع دیے بغیر باپ کی جائیداد کو آپس میں تقسیم کیا اور اپنی بہن کو کوئی حصہ نہیں دیا تو شرعاً اور قانوناً چوں کہ بیٹی بھی حصہ دار تھی اور حکومت نےبھی قانون کے مطابق بیٹی کو اس کے حصہ کے کاغذات کا انتقال دے دیا،  مگر بھائی ان کو قبضہ نہیں دے رہے تھے تو بیٹی یعنی میری ماں نے اپنے حصہ کی زمین کو مجھے (۲۰۰۰۰)روپے میں فروخت کیا۔ لیکن میری ماں کے بھائی یعنی میرے ماموں ابھی تک اس حصہ پر قابض ہیں اور مجھے اپنی زمین نہیں دے رہے، ابھی کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک ماموں کے ساتھ صلح اور اس سے اپنا آدھا وصول کرکے بات ختم کردی اب سوال یہ ہے:

1۔ کیا دوسرے ماموں کے ساتھ شریعت کی رو سے میراحصہ بنتاہے یا نہیں؟ واضح رہے میرے ماموں نے(۱۹۸۱ء)میں جائیداد کو آپس میں تقسیم کیا تھا اور میری والدہ نے(۱۹۹۱ء) میں اپنا حصہ مجھے فروخت کیا تھا اور میری والدہ(۱۹۹۱ء) میں وفات پاچکی ہیں اور (۱۹۸۸ء) میں میرے ماموؤں کے بیٹوں نے بھی اس مال کو آپس میں تقسیم کیا تھا۔

2  ۔ نیز  یہ بھی واضح فرمائیں کہ میں نے اپنی ماں سے حصہ خریدنے کا جو معاملہ کیا تھا درست تھا یا نہیں؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں آپ کے جس ماموں نے مذکورہ زمینی حصہ روکا ہوا ہے، ان سے مطالبہ کا شرعاً آپ کو حق حاصل ہے، ان کی جانب سے قبضہ کیے رکھنا جائز نہیں، ان کا ایسا عمل آخرت میں سخت پکڑ کا سبب بن سکتاہے۔

2۔ مسئولہ صورت میں آپ نے اپنی والدہ سے جو سودا کیا تھا  وہ شرعاً درست تھا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں