بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ میں شامل سودی رقم کا حکم


سوال

زید کی والدہ کا بہت عرصہ پہلے انتقال ہو گیا تھا,  اور والد نے اپنے ترکے میں اپنے انتقال کے وقت حیات ورثاء ( 5 بیٹوں اور 4 بیٹیوں) کے لیے مندرجہ ذیل مال چھوڑا تھا:

1_کئی ہزار مالیت کے پرائز بانڈز ۔

  2_اپنی اولاد میں سے ہر ایک کے نام پر آج سے 35 سال پہلے خریدے گئے دو، تین اور چار ہزار روپے مالیت کے ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس، جن پر سود لگ کر اب ان میں سے ہر ایک کی قیمت کئی لاکھ تک پہنچ چکی ہے.

  3_ بینک میں پنشن کے لیے کھلا ہوا سودی اکاؤنٹ جس میں پنشن کی اصل رقم کے ساتھ ساتھ سودی رقم کی بھی ایک بڑی مقدار موجود ہے.

4_ جوتے اور کپڑے. 

اب ان کی تقسیم کرنی ہے اور آپ سے شریعت کی روشنی میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں:

 1ـ حصے کیا ہوں گے؟

2- پرائز بانڈز کی تقسیم ہو گی یا نہیں ہو گی؟  اگر ہو گی تو طریقہ کار بتا دیں. اور اگر نہیں ہو سکتی تو ان کا کیا کریں؟ 

3- ڈیفینس سیونگ سرٹیفکیٹس تو اولاد میں سے ہر ایک کے نام محتلف مالیت کے ہیں. اور والد صاحب نے اجمالاً اپنی زندگی میں اپنی اولاد سے ذکر بھی کر دیا تھا کہ میں نے تم میں سے ہر ایک کے لیے خرید کر رکھ چھوڑے ہیں. آیا ان میں تقسیم ہو گی یا جس کے نام جتنی مالیت کے سرٹیفیکیٹ ہیں وہی ان کا مالک ہو گا؟ پھر آیا یہ تقسیم صرف اصل مالیت کے اعتبار سے ہو گی؟ کیوں کہ ان میں سود کی ایک بڑی مقدار لگ چکی ہے، اور اگر نہیں تو ان کا کیا کیا جاۓ؟

4-سودی بنک اکاؤنٹ میں موجود رقم میں بھی یہ وضاحت درکار ہے کہ تقسیم صرف اصل پنشن کی رقم میں ہو گی یا سودی رقم میں بھی تقسیم ہو گی؟ پہلی صورت میں اس سودی رقم کا کیا کیا جاۓ؟

5- جوتے اور کپڑے اگر تمام بہن بھائی آپس میں پسند و نا پسند کے اعتبار سے تقسیم کر لیں، حصے کے مطابق نہ کریں اور سب اس پر راضی بھی ہوں تو کیا یہ تقسیم جائز ہے؟ 

جواب

1 ، 2، 3۔ 4۔صورتِ مسئولہ میں مرحوم  کے ترکہ میں سے ادائے قرض اور نفاذِ وصیت کے بعد اسے چودہ حصوں میں تقسیم کردیاجائے۔ہر ایک بیٹے کو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔  پرائز بانڈز، سیونگ سرٹیفیکیٹس اور پنشن کی اصل مالیت ہی بطورِ ترکہ تقسیم کی جائے گی۔  مذکورہ تینوں ذرائع پر لگنے والے سود کی رقم اگر ابھی تک وصول نہیں کی ہو تو اسے وصول ہی نہ کیا جائے، اور اگر سودی رقم وصول کرلی ہے تو اگرمتعلقہ اداروں کو واپس کرنا ممکن ہو تو سودی رقم واپس کردی جائے اور اصل رقم ورثاء میں تقسیم کردی جائے اور اگر متعلقہ اداروں کو واپس کرنا ممکن نہ ہو تو سودی رقم بلانیتِ ثواب غریبوں میں صدقہ کردی جائے۔ ورثہ میں صرف اصل رقم ہی تقسیم ہوگی۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: إلَّا فِي حَقِّ الْوَارِثِ إلَخْ) أَيْ فَإِنَّهُ إذَا عَلِمَ أَنَّ كَسْبَ مُوَرِّثِهِ حَرَامٌ يَحِلُّ لَهُ، لَكِنْ إذَا عَلِمَ الْمَالِكَ بِعَيْنِهِ فَلَا شَكَّ فِي حُرْمَتِهِ وَوُجُوبِ رَدِّهِ عَلَيْهِ، وَهَذَا مَعْنَى قَوْلِهِ: وَقَيَّدَهُ فِي الظَّهِيرِيَّةِ إلَخْ، وَفِي مُنْيَةِ الْمُفْتِي: مَاتَ رَجُلٌ وَيَعْلَمُ الْوَارِثُ أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يَكْسِبُ مِنْ حَيْثُ لَايَحِلُّ وَلَكِنْ لَايَعْلَمُ الطَّلَبَ بِعَيْنِهِ لِيَرُدَّ عَلَيْهِ حَلَّ لَهُ الْإِرْثُ، وَالْأَفْضَلُ أَنْ يَتَوَرَّعَ وَيَتَصَدَّقَ بِنِيَّةِ خُصَمَاءِ أَبِيهِ. اهـ (شامي، مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ٥/ ٩٩)

ملحوظ رہے کہ ڈیفینس سرٹیفیکیٹ  والدِ مرحوم نے 35 سال قبل جو اپنی مختلف اولادوں کے نام پر لیے تھے اگر وہ ٹیکس و دیگر معاملات کی وجہ سے محض بچوں کے نام پر لیے تھے اور اصل ملکیت اپنے پاس ہی رکھی تھی تو ایسی صورت میں یہ سرٹیفیکیٹ مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوں گے اور تفصیل بالا کے مطابق ان کی تقسیم کی جائے گی، تاہم اگر انہیں نے اپنی اولاد کے لیے ہی بطورِ گفٹ لیے تھے تو یہ سرٹیفیکیٹ مرحوم کے ترکہ میں شامل نہ ہوں گے۔

5۔ مرحوم کے استعمال کی اشیاء، کپڑے ، جوتے،  گھڑی وغیرہ سب مرحوم کے  ترکہ میں شامل ہیں، جس میں تمام ورثاء حصصِ شرعیہ  کے تناسب سے شریک ہیں، البتہ اگر ورثاء باہمی رضامندی سے اس کی تقسیم کرلیتے ہیں تو اس کی اجازت ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200843

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں