بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں اجرت لینا


سوال

میں نے ایک بیان سنا جس میں  یہ کہا گیا ہے کہ  تراویح پر اجرت لینا جائز ہے اور قرآن و حفاظ کی عظمت ہے اور قراء حضرات کے وظائف سے آپ واقف ہیں۔

جواب

تراویح کی نماز میں قرآن مجید سنا کر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں، لینے اور دینے والے دونوں گناہ گار ہوں گے، تاہم اگر قرآن مجید سنانے والے کو رمضان المبارک میں تمام نمازوں یا ایک دو نماز کے لیے نائب امام بنا دیا جائے اور اس کے ذمہ ایک یا دو نمازیں سپرد کردی جائیں اور رمضان کے آخر میں تنخواہ کے نام پر کچھ دینا جائز ہوگا۔

 اگر بلاتعیین کچھ دے دیا جائے اور نہ دینے پر شکوہ یا شکایت نہ ہو اوردینا مشروط یا معروف بھی نہ ہو تو یہ صورت اجرت میں داخل نہیں ہے۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (6 / 56)

'' فالحاصل: أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال، فإذا لم يكن للقارىء ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر!! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا، إنا لله وإنا إليه راجعون!! اهـفقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200946

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں